جو اوپر کی منزل میں سیڑھیوں کے درمیان میں بنا ہوا تھا،لکھنے پڑھنے میں مصروف تھاکہ سیڑھیوں سے کسی کے آنے کا احساس ہوا۔معاً خیال گزرا کہ کہیں مولانا احمدالدین ہی نہ ہوں، کیوں کہ سیڑھیوں پر چڑھنے کا ان کا خاص طریقہ تھا۔نظر اور جسمانی کمزوری کے باعث وہ پہلے اپنا عصا سیڑھی پر مارتے۔پھر اس پر قدم رکھتے۔یوں ٹھک ٹھک کی آواز سے احساس ہوا کہ مولانا احمد الدین معلوم ہوتے ہیں۔میں اٹھا تو میرا گمان یقین میں بدل گیا۔انھیں تکیے کے ساتھ بٹھا یا تو سانس لینے کے بعد فرمانے لگے، میں امام بیہقی کی کتاب الاسما والصفات میں حوالہ دیکھنے کے لیے آیا ہوں، وہ حوالہ دکھاؤ۔میں نے حیران ہوکر عرض کیاآپ نے اتنی زحمت کیوں فرمائی۔مجھے کہہ دیا ہوتا، میں کتاب لے کر خود حاضر خدمت ہو جاتا۔فرمانے لگے ضرورت میری تھی، تمھاری نہیں … یہ ہے علم کی طلب ِصادق۔اس پیرانہ سالی میں بھی یہ ذوق و شوق، ائمہ سلف کی میراث ہے۔میں نے کتاب الاسما والصفات کے علاوہ علامہ ہیثمی کی مجمع الزوائد سے بھی ’’ینزل من السماء‘‘ کے الفاظ دکھائے تو بڑے خوش ہوئے اور ڈھیروں دعائیں دیں۔ 6۔مولانا محمد یوسف انورنے ذکر کیا کہ مولانا احمد الدین وزیرآباد میں محدثِ پنجاب مولانا حافظ عبدالمنان کی جامع مسجد میں خطیب تھے۔اسی دوران میں ایک خطبہ وہاں مولانا عبداللہ مظفرگڑھی نے ارشاد فرمایا تو انتظامیہ کا مزاج بدل گیا۔وہ بڑے خوش الحان اور مقبول خطیب تھے۔ مولانا احمد الدین علم وفضل کا سمندر تھے۔استنباط مسائل میں اجتہادی ملکہ رکھتے تھے اور بڑے حاضر جواب مناظر اور اپنے مدِمقابل کو ہر پہلو میں مسکت جواب دیتے تھے۔مگر ترنم اور خوش الحانی ان کی لغت سے خارج تھی۔اپنی تمام تر خوبیوں کے |