احبابِ جماعت ان کی خدمت کرتے اور بیس پچیس دن بعد واپس تشریف لے جاتے۔پھر وہ وقت بھی آیا کہ نقاہت و کمزوری کے باعث ان کا یوں آنے جانے کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ 3۔ایک بار یہ ناکارہ ان کی خدمت میں گکھڑ حاضر ہوا۔گھرسے باہر سڑک کنارے چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے۔کچھ دیر ان کی خدمت میں بیٹھا رہا اور دعائیں لیتا رہا، علاج معالجے کے لیے کچھ رقم ان کی خدمت میں پیش کی تو بڑی بے نیازی سے خاموشی کے ساتھ تکیے کے نیچے رکھ دی۔ 4۔مولانا مرحوم جامعہ رحمانیہ میں مختصر درس ارشاد فرماتے۔راقم ان ایام میں ادارہ علوم اثریہ منٹگمری بازار میں مقیم تھا۔کبھی کبھی صبح کی نماز رحمانیہ مسجد میں ادا کرتا اور ان کے درس سے مستفید ہوتا۔درس کے بعد مجلس میں حاضرین کے استسفارات کا جواب دیتے۔اکثر و بیشتر قادیانیت، عیسائیت اور خرافاتیوں کے بارے میں گفتگو فرماتے۔مرزا غلام احمد قادیانی کی کتابیں ہوں یا تورات وانجیل، حسبِ مناسبت ان کی عبارتیں پڑھتے تویوں محسوس ہوتا کہ انھیں یہ کتابیں ازبر ہیں۔ 5۔ایک روز دوران گفتگو حیات مسیح علیہ السلام کے متعلق بحث چل نکلی تو انھوں نے فرمایا کہ امام بیہقی کتاب الاسما والصفات میں ایک روایت لائے ہیں، جس میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کے آسمان سے نازل ہونے کاذکر ہے۔مجھے یہ کتاب نہیں مل سکی، ایک ثانوی حوالے میں یہ الفاظ میں نے دیکھے ہیں۔میں نے عرض کیا حضرت ادارہ علومِ اثریہ کے کتب خانے میں امام بیہقی کی یہ کتاب موجود ہے اور اس میں واقعی یہ روایت ہے۔میری بات سن کرخاموش ہوگئے۔کچھ دیر بعد میں واپس ادارے میں آگیا۔دن کے تقریباً 9 بجے ہوں گے۔میں اپنے کمرے میں |