’’عیسائیت اور اسلام میں آویزش بہت پرانی ہے۔اس کے وجوہ مختلف رہے ہیں:معاشی، سیاسی، دینی، اخلاقی۔اسلام نے ہر میدان میں مسیحیت سے مقابلہ کیا، دفاع بھی کیا، جارحانہ حملے بھی کیے۔خود مسیحیت نے بھی اسلام کے ساتھ زور آزمائی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔تاریخ بتاتی ہے کہ جب عیسائیت کو موقع ملا، اس نے اسلام کو کبھی نہیں بخشا۔عرصے تک یہ لڑائی اپنے اپنے حلقوں میں ہوتی رہی۔علما، اعتقاد اور اعمال میں مناظرات کرتے رہے، حکومتیں میدان کارزار میں اپنے جوہر دکھاتی رہیں۔سیاسی، علمی، معاشی حلقے اپنے اپنے انداز سے اپنے اپنے مذہب کی خدمت کرتے رہے۔ عرصے سے مغربی حکومتوں نے سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کو استعمال کرنا شروع کیا۔معاشی رعایتوں سے مسیحیت کی اشاعت کے لیے راہیں ہم وار کیں۔چھوٹے اور غیر مستطیع ملکوں کو اس انداز سے امداد دی گئی کہ وہاں اگر سیاسی حربوں سے کام نہ چلے تو مشنریوں اور ان کے متعلقہ حلقوں کو سیاسی دسیسہ کاریوں کے لیے استعمال کیا جائے۔ بعض کم فہم سیاست دانوں نے اپنی وسیع النظری کی ترنگ میں ملک میں ایسے عناصر پیدا کرلیے جن کی وفاداری ملک کے ساتھ قطعی طور پرمشکوک ہے۔ وہ اس ملک میں رہتے ہوئے بھی دوسرے ملک کے وظیفہ خوارہیں۔یہ ہم وطن اجنبی اپنے ملک کے بجائے دوسرے ملکوں کی خدمت کرتے ہیں، اس لیے کہ انھیں کہیں سے وظیفہ درآمد ہوتا ہے۔ مغربی طاقتیں اس عیسائیت کی اشاعت پر کروڑوں روپے خرچ کررہی |