مناظرہ شروع ہوا، لیکن جب بریلوی حضرات نے دیکھا کہ دلائل کی رو سے اہلِ حدیث غلبہ پارہے ہیں اور معاملہ ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے تو مولانا عبدالغفور ہزاروی کھڑے ہوئے اور بریلوی حاضرین سے مخاطب ہو کر کہا: ’’اے مسلمان کہلانے والے بے غیرت لوگو! تمھارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بے حد خوب صورت اور پھولوں سے زیادہ خوشبودار تھے۔لوگو! تم پر عذابِ الٰہی نازل ہو، تم سن نہیں رہے کہ وہابی بار بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’کالا کالا‘‘ کہہ رہے ہیں۔تم وہابیوں کی اس گستاخی پر کیوں خاموش ہو۔‘‘ اس پر ایک ہنگامہ بپا ہو گیا۔لوگ کھڑے ہوگئے اور مناظرہ ختم ہوگیا۔ ’’اہلِ حدیث مناظر حوالے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث پڑھتے تو ’’قال قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم’‘کے الفاظ سے شروع کرتے تھے۔اس ’’قال قال‘‘ کو شکست سے بچنے کے لیے مولانا عبدالغفور ہزاروی نے ’’کالا کالا‘‘ میں بدل دیا۔‘‘ بہر حال مولانا احمد الدین گکھڑوی فنِ مناظرہ کے تمام پہلوؤں پر حاوی تھے۔مستحکم دلائل سے اپنے مدِ مقابل کا سامنا کرتے۔ہر مناظرے میں اللہ نے ان کو کامیابی عطا فرمائی۔شکست سے بچنے کے لیے لوگ مناظروں میں ہنگامے بھی کرتے ہیں، جس سے مناظرے ادھورے رہ جاتے ہیں، مولانا احمد الدین گکھڑوی کے بعض مناظروں میں بھی فریقِ مخالف نے ہنگامے کیے۔یہ کوئی بہت بڑی بات نہیں ہے۔ہنگامہ آرائی بھی مناظرے کا حصہ ہے، جو اس وقت کی جاتی ہے، جب شکست سامنے نظر آرہی ہو۔ مولانا احمد الدین گکھڑوی کے جن مرزائی مناظرین سے مناظرے ہوئے ان میں ’’احمدیہ پاکٹ بک‘‘ کے مصنف ملک عبدالرحمن خادم گجراتی، اللہ دتا المعروف ابوالعطا جالندھری، عبداللہ مبشر، غلام رسول، یار محمد اور سعد الدین وغیرہ شامل ہیں۔ |