Maktaba Wahhabi

135 - 346
نے جواب دیاکہ اس نے جامعہ رشیدیہ کے دیوبندی علما کو مناظرے کے لیے چیلنج کیا ہے، مولانا احمد الدین سے میرا کوئی جھگڑا نہیں اور میں ان سے کسی بھی موضوع پر مناظرہ نہیں کرنا چاہتا۔تاہم مولانا احمد الدین نے وہاں عیسائیت سے متعلق تقریریں کیں۔پادری صاحب کو بار بار مناظرے کی دعوت دی، لیکن وہ مقابلے میں نہیں آئے۔اس طرح مناظرے کے بغیر ہی مولانا احمد الدین اپنے نیک مقصد میں کامیاب رہے۔ بعض اوقات مناظر کو ایسی باتیں بھی مناظرے میں کہنا پڑتی ہیں جو عام حالات میں نہ وہ کہہ سکتا ہے، نہ کہنا چاہتا ہے۔لیکن مدِ مقابل مجبور کرتا ہے تو بادلِ نخواستہ جواب دینے کے لیے اسے زبان کھولنا پڑتی ہے۔ایک مرتبہ لاہور میں حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری ایک آریہ پنڈت سے مناظرہ کر رہے تھے۔پنڈت جی نے اسلامی احکام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بعض نہایت نازیبا کلمات کہے۔مولانا ثناء اللہ صاحب نے اپنے خاص انداز میں ان کا جواب دیا تو وہ مزید گستاخی پر اتر آیا۔اب جواب میں مولانا کچھ دوسرا انداز اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے۔انھوں نے اعلان کیاکہ پنڈت جی مجھے جواب کے لیے جبراً ایسی راہ پر لگانا چاہتے ہیں، جس سے میں بچنا چاہتا تھا۔اب میں انہی کی مذہبی کتابوں سے ان کے اعتراضات کا جواب دوں گا۔دیویوں سے میری گزارش ہے کہ وہ اس مجلس سے تشریف لے جائیں۔میں نہیں چاہتا کہ ان قابلِ احترام دیویوں کے سامنے ان کی مذہبی کتابوں کی اصل عبارتیں پڑھوں۔پھر ایک منٹ مولانا خاموش رہے۔ایک منٹ کے بعد فرمایا: امید ہے دیویاں تشریف لے گئی ہوں گی۔اب میں وہ عبارتیں پڑھتا ہوں جو دیویوں کی موجودگی میں نہیں پڑھنا
Flag Counter