مذکورہ بالا حافظ ابن حجر کی تحریر کردہ کتب ہونے کے علاوہ اس قلمی فہرست کی بہت سی دیگر نادر کتب کا بھی فتح الباري میں بار بار حوالہ پایا جاتا ہے۔اس تفصیل سے آٹھویں،نویں صدی تک ان کتابوں کے کرۂ ارضی پر پائے جانے کی خبر ہو رہی ہے۔نیز حافظ ابن حجر کا ان سے یقینی تعلق ثابت ہو رہا ہے،اس کے بعد اگر تاریخی طور پر یہ ثابت ہوجائے کہ حافظ ابن حجر کا عظیم کتب خانہ کس طرح جرمنی پہنچا تھا تو محدث مبارکپوری کی معلومات کی حقانیت کھل کر سامنے آسکتی ہے۔تاریخ کے طالب علموں کے لیے یہ عمدہ موضوع تحقیق ہے۔
۱۹۱۴ء کی جنگ عظیم کے نتیجے میں جرمنی جس تباہی سے دوچار ہوا،وہ کس سے مخفی ہے؟ اس تباہی کے دوران میں مکتبہ دار العلوم کے برباد ہونے کا اغلب امکان تھا،جیسا کہ قاضی اطہر مبارکپوری صاحب نے اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’مولانا(مبارکپوری)نے مقدمہ(تحفۃ الاحوذی)میں کتبِ حدیث کے مخطوطات اور نوادر کے بارے میں نشاندہی کی ہے کہ فلاں کتاب یورپ اور ایشیا کے فلاں فلاں کتب خانے میں موجود ہے۔۔۔چوں کہ ادھر پچھلے برسوں میں یورپ اور ایشیا میں متعدد جنگیں ہوچکی ہیں اور انقلابات آچکے ہیں،اس لیے بہت سے ممالک کے کتب خانوں پر زوال آیا اور ان کے نظام میں ابتری پیدا ہوئی۔ان کی کتابیں اِدھر سے اُدھر ہوئیں اور بہت سی غائب بھی ہوگئیں،اس لیے ہوسکتا ہے کہ اس مقدمے کی نشاندہی بعض کتابوں کے بارے میں بے محل معلوم ہوتی ہو۔‘‘[1]
لیکن یہ ابتدائی اطلاع انتہائی مسرت بخش ہے کہ یہ مکتبہ تاحال باقی ہے۔عظیم علم دوست و کتاب دوست شیخ حماد الانصاری کے مطابق ان کے دوست خالد لبنانی بہ
|