اس لڑکے نے کہنا شروع کیا: ابا جان! ’’امی جان‘‘ بخیر وعافیت ہیں، سب بہن بھائی بھی ٹھیک ٹھاک ہیں، ماموں جان بھی سفر سے بخیریت واپس لوٹ آئے ہیں۔لڑکا باتیں کرتا گیا اور مریض اپنی اصل حالت پر ہی رہا۔اس کے جسم میں کوئی حرکت نہیں آئی۔مصنوعی تنفس کے آلات نو سانسیں فی منٹ کے حساب سے اس کے پھیپھڑوں تک ہوا پہنچاتے جا رہے تھے۔ اچانک اس کے بیٹے نے یہ کہنا شروع کیا: مسجد آپ کے لیے اداس اور آپ کو دیکھنے کی مشتاق ہے۔مسجد میں صرف فلاں شخص ہی اذان کہتا ہے، جو اذان میں غلطیاں کرجاتا ہے۔مسجد میں آپ کی جگہ خالی پڑی ہے۔اس کے بیٹے نے جب مسجد اور اذان کی بات شروع کی تو شیخِ محترم کا دل دھڑکنے لگا، اس نے سانسیں لینا شروع کر دیا۔عین اسی وقت میں نے مصنوعی تنفس کے آلے کو دیکھا تو اس کا میٹر اس وقت اٹھارہ سانسیں فی منٹ بتا رہا تھا۔لیکن اس لڑکے کو اس بات کی کوئی خبر نہیں۔ پھر لڑکے نے کہنا شروع کیا: ہمارے چچا زاد بھائی نے شادی کرلی ہے۔ہمارے بھائی نے تعلیم سے فراغت حاصل کرلی ہے۔شیخ کی سانسیں پھر سے مدہم پڑ گئیں اور آلے نے پھر نو سانسیں فی منٹ دکھانا شروع کر دیا۔جب میں نے یہ منظر دیکھا تو میں شیخ کی طرف بڑھا اور اس کے سرہانے کھڑے ہو کر اس کا ہاتھ ہلایا، اس نے آنکھیں کھول کر دیکھیں۔انھیں حرکت دی مگر کچھ بھی نہ ہوا۔ہر چیز اپنی اپنی جگہ ساکن تھی، اس نے میرے ہلانے کا کوئی جواب نہ دیا۔مجھے اس پر بہت تعجب |