میں نے ان سے کہا: ابو قتادہ رضی اللہ عنہ ! میں تمھیں اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتاہوں۔! کیا تم یہ نہیں جانتے کہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہوں۔؟ مگر وہ خاموش رہے۔میں نے دوبارہ اپنی بات کو دہرایا۔اے ابو قتادہ رضی اللہ عنہ ! کیا تم یہ مانتے ہو کہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہوں۔؟ مگر وہ چپ سادھے رہے۔پھر میں نے تیسری مرتبہ بھی یہی بات کہی:اے ابو قتادہ رضی اللہ عنہ ! میں تمھیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں۔کیا تم نہیں جانتے کہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہوں؟ اب وہ لب کشا تو ہوئے مگر صرف اتنا کہا: ’’اَللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ‘ اَعْلَمُ‘‘ ’’اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی زیادہ جانتے ہیں۔‘‘ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے اپنے چچیرے بھائی اور دنیا جہان میں اپنے سب سے پیارے شخص سے یہ جواب سنا۔وہ نہیں جانتے کہ وہ مومن ہیں یا نہیں؟ یہ سن کر سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کو رنج سے اپنے آپ پر قابو نہ رہا اور ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔اب انھوں نے باغ کی دیوار سے چھلانگ لگائی۔باہر نکل کر سیدھے اپنے گھر پہنچے اور اس خالی گھر کی دیواروں پر نظر یں دوڑانے لگے۔بیوی گھر میں موجود نہ تھی کہ ان کے ساتھ بیٹھ کر غمگساری کرتی اور نہ ہی دوسرا کوئی قریب تھا جو مونس و غمخوار بنتا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لوگوں کو ان سے بول چال بند کر دینے کا حکم دینے پر پچاس دن گزر چکے تھے۔پچاسویں رات کی پہلی تہائی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کی قبولیتِ توبہ کی بشارت پر مبنی آیات نازل ہو گئیں۔ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: |