سیدنا ہلال بن اُمیہ رضی اللہ عنہ کی بیوی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہلال بن اُمیہ رضی اللہ عنہ بہت عمر رسیدہ اور کمزور ہیں، کیا مجھے اتنی اجازت مرحمت فرماتے ہیں کہ میں ان کی خاطر خدمت کر دیا کروں ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں، لیکن وہ تمھارے قریب نہ آنے پائے۔‘‘ اس نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اس میں کسی قسم کی کوئی طلب و حرکت نہیں، وہ انتہائی قلق و پریشانی میں مبتلا ہیں اور جب سے یہ معاملہ ہوا ہے وہ شب روز روتے ہی رہتے ہیں۔ یہ دن سیدنا کعب رضی اللہ عنہ پر بڑے بھاری گزر رہے تھے، ان پر جفا سخت ہوگئی تھی۔حتیٰ کہ انھوں نے اپنے ایمان کو ٹٹولنا شروع کر دیا۔وہ مسلمانوں سے بات چیت کرتے مگر ان کی کسی بات کا کوئی جواب نہ دیتا۔وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہتے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سلام کا بھی جواب نہ دیتے۔وہ سوچنے لگے کہ جائیں تو جائیں کہاں؟ مشورہ کریں تو کس سے۔؟ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب یہ حالتِ کرب و بلا طول پکڑ گئی تو بالآخر میں سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا۔وہ میرے چچا زاد بھائی اور تمام لوگوں سے زیادہ مجھے پیارے تھے۔وہ اپنے باغ میں تھے اور اندر سے باغ کی چار دیواری کا دروازہ بند کیے ہوئے تھے۔میں نے دیوار پھلانگی اور اندر ان کے پاس جانکلا۔میں نے انھیں سلام کہا۔مگر اللہ کی قسم! انھوں نے بھی میرے سلام کا جواب تک نہ دیا۔ |