آگ میں جھونکا اور جلا کر راکھ کر دیا۔ شب و روز کی آمدورفت کا سلسلہ جاری تھا، دنوں پر دن گزرتے چلے جا رہے تھے۔پورا ایک مہینا گزر گیا اور سیدنا کعب رضی اللہ عنہ اسی حالتِ کرب وبلا میں مبتلا تھے۔ان کے خلاف بائیکاٹ کا حصار شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا تھا۔تنگی کا بوجھ روز بروز بڑھتا ہی جا رہا تھا۔رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کوئی قدم اٹھا رہے تھے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی وحی کوئی فیصلہ فرما رہی تھی۔جب اسی حالت میں چالیس دن مکمل ہو گئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک قاصد سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ باہر نکلے۔دل میں یہ امید تھی کہ شاید مشکلات آسان ہونے کا وقت اور تنگی میں کشایش آنے والی ہے۔قاصدِ رسول نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پیغام دیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آپ کو حکم ہے کہ اپنی بیوی سے علاحدگی اختیار کر لیں۔انھوں نے استفسارکیا: ’’میں اسے طلاق دے دوں یا کیا کروں؟‘‘ پیامبر نے جواب دیا: ’’نہیں؛ طلاق نہ دو، البتہ اسے علاحدہ کردو اور اس کے قریب نہ جاؤ۔‘‘ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ اپنی اہلیہ کے پاس گئے اور اسے کہا۔تم اپنے والدین کے گھر چلی جاؤ اور اس وقت تک وہیں رہنا جب تک اللہ تعالیٰ میرے بارے میں کوئی فیصلہ نہ صادر فرما دیں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی پیغام سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کے دوسرے دونوں ساتھیوں کو ارسال فرما دیا تو ان میں سے |