Maktaba Wahhabi

57 - 158
دیکھنے کے لیے حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے خط کھولا۔اس میں لکھا تھا: ’’حمد و ثناے باری اور آداب کے بعد! اے کعب! مجھے اطلاع ملی ہے کہ تمھارے ساتھی(نبی صلی اللہ علیہ وسلم)نے تم پر زیادتی کی ہے اور تمھیں اپنے قرب سے دور ہٹا دیا ہے۔آپ ذلت و رسوائی کے لائق نہیں ہیں۔ہمارے پاس چلے آئیں۔ہم آپ کی غمخواری اور دلداری کریں گے۔‘‘ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے جب پورا خط پڑھ لیا تو بے اختیار ان کی زبان سے نکلا:’’اِنَّا لِلّٰہ وَاِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ‘‘ اہلِ کفر مجھ پر نظر یں جمائے بیٹھے ہیں۔یہ بھی ایک آزمایش۔امتحان اور سراسر شیطانی حملہ تھا۔وہ فوراً اٹھے۔اس خط کو تنور میں جھونک دیا اور آگ میں جلا کر اسے خا کستر کر دیا۔ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے لمحہ بھر بھی بادشاہ کے اس بہکاوے کی طرف التفات نہ فرمایا۔جی ہاں! ان کے سامنے بادشاہوں کے درباروں تک پہنچنے کے راستے کھل گئے۔بڑے بڑے عظیم لوگوں کے محلات وا ہوگئے۔وہ انھیں احترام و اکرام دینے اور اپنا مصاحبِ خاص بنانے پر تیار ہوگئے۔جبکہ ان کا اپنا شہر مدینہ منورہ ان سے تُرشرو تھا اور لوگ ان سے چیں بجبیں(تیوری چڑھائے ہوئے)تھے۔وہ لوگوں کو سلام کہتے تو کوئی ان کے سلام کا جواب تک نہ دیتا۔وہ کسی سے کوئی بات پوچھتے تو کسی سے جواب نہ پاتے۔اس سب کچھ کے باوجود بھی وہ کفار کی طرف قطعاً متوجہ نہ ہوئے۔شیطانِ لعین ان کے پائے استقامت میں لرزش پیدا کرنے میں کامیاب ہوسکا اور نہ انھیں خواہشاتِ نفس کی غلامی پر لگا سکا۔بلکہ انھوں نے غسّانی بادشاہ کے مکتوب کو
Flag Counter