نگاہوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا۔جب میں نماز پڑھنے لگتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف متوجہ ہوتے۔اور جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف توجہ کرتا تو آپ میری طرف سے رخِ مبارک ہٹا لیتے۔ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ پر اسی حالت میں کئی دن گزر گئے۔ان کا کرب و درد روز افزوں ہوتا گیا۔وہ اپنی قوم کے انتہائی باعزت انسان۔بلکہ انتہائی فصیح اللسان اور بلیغ الکلام شاعر تھے۔بڑے بڑے بادشاہ اور امرا و حکّام انھیں جانتے تھے۔ان کے اشعار کی دھوم تو بڑے بڑے لوگوں میں بھی مچی ہوئی تھی۔یہاں تک کہ وہ لوگ ان سے ملاقات کی تمنائیں کیا کرتے تھے۔جبکہ ان کا حال آج یہ تھا کہ اپنے شہر مدینہ منورہ میں۔اپنی ہی قوم کے مابین ہیں۔اور کوئی ان سے بات تک نہیں کرتا۔انھیں دیکھنے تک کا روادار نہیں بن رہا۔یہاں تک کہ جب یہ بیگانگی شدت اختیار کر گئی اور ان کی مشقت وتکلیف نے انھیں تنگ کر دیا تووہ ایک اور امتحان سے دو چار کر دیے گئے۔ ایک دن وہ بازار میں گھوم رہے تھے کہ وہاں شام سے ایک عیسائی آن پہنچا اور اس نے آواز لگائی: مجھے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ تک کون پہنچا سکتا ہے؟ لوگوں نے سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کی طرف اشارے کرنا شروع کر دیے۔وہ ان کے پاس آیا اور ان کی خدمت میں غسّان کے بادشاہ کا مکتوب پیش کر دیا۔عجیب!! شاہِ غسّان کی طرف سے!! ان کے معاملے کی خبر بلادِ شام تک پہنچ چکی تھی اور غسّانیوں کے بادشاہ نے ان کے معاملے میں خصوصی دلچسپی لی۔یہ بادشاہ کیا چاہتا ہے؟ یہ |