کر دیا۔ناگاہ میں ایک ایسی جگہ پر تھی کہ جسے میں نہیں جانتی تھی۔وہ جگہ اندھیری تھی۔کوئی با غیچہ یا فارم ہاؤس لگتا تھا۔میں نے اس پر چلاّنا شروع کر دیا کہ یہ کون سی جگہ ہے۔؟ تم مجھے کہاں لیے جا رہے ہو؟ چند ہی لمحات گزرے تھے کہ گاڑی کھڑی ہوگئی اور کوئی دوسرا شخص میری سائیڈ کا دروازہ کھول کر مجھے زبرد ستی گاڑی سے باہر کھینچ رہا تھا۔اور تیسرا شخص ابھی فارم ہاؤس کے اندر تھا۔اور وہیں میں نے ایک چوتھے آدمی کو بھی بیٹھے دیکھا۔اس جگہ سے عجیب قسم کی بوئیں اُٹھ رہی تھیں۔ہر ہر چیز مجھ پر بجلی بن کر گر رہی تھی۔میں چلاّئی۔روئی۔منتیں سماجتیں کرکے ان سے رحم کرنے اور ترس کھانے کی اپیل کی۔شدتِ خوف کی وجہ سے میری یہ حالت ہوگئی کہ مجھے اپنے گردو پیش میں رونما ہونے والے واقعات کی کوئی سمجھ نہیں آرہی تھی۔پھر میں نے اپنے منہ پر زناٹے دار طمانچہ محسوس کیا۔کوئی آواز مجھ پر چلّا رہی تھی۔اس آواز اور طمانچے نے نہ صرف مجھے ہلا کر رکھ دیا بلکہ میں خوف و ہراس کے نتیجے میں اپنے ہوش ہی کھوہ بیٹھی تھی۔ اب میرے ساتھ جو ہوا سو ہوا۔کچھ دیر کے بعد جب مجھے ہوش آیا تو میں سخت مرعوب تھی۔میرے سارے جسم پر رعشہ طاری تھا۔اور میں لمحہ بھر کے لیے بھی رونے سے نہیں رک رہی تھی۔انھوں نے میری آنکھوں پر پٹی باندھی۔اور اٹھا کر گاڑی میں ڈالا اور میرے گھر کے قریب ایک جگہ مجھے پھینک گئے۔ میں بھاگم بھاگ گھر میں داخل ہوگئی۔اب میرا صرف ایک ہی کام تھا۔رونا اور بس روتے ہی رہنا۔حتیٰ کہ میری آنکھوں سے آنسوؤں کا پانی |