وَلَیْتَ الَّذِیْ بَیْنِیْ وَ بَیْنَکَ عَامِرٌ وَبَیْنِیْ وَبَیْنَ الْعَالَمِیْنُ خَرَابٗ ’’اے کاش! تیرے اور میرے باہمی تعلقات قائم و استوار ہو جائیں اور باقی سارے جہانوں کی چاہے مجھ سے بگڑی رہے۔‘‘ اِذَا صَحَّ مِنْکَ الْوُدُّ فَالْکُلُّ ہَیِّنٌ وَکُلُّ الَّذِیْ فَوْقَ التُّرَابِ تُرَابٗ ’’اگر مجھے تیری محبت صحیح معنوں میں حاصل ہو جائے تو باقی سب کی عداوت میرے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتی کیوں کہ روئے زمین پر جو کچھ بھی ہے وہ تو آخر مٹی ہی میں ملنے والا ہے۔‘‘ جی ہاں! سیدنا طفیل رضی اللہ عنہ اسی جگہ مشرف بہ اسلام ہوگئے اور کلمۂ شہادت پڑھ کرشہادتِ حق کا اقرار کر لیا۔ان کی ہمت بہت بڑھ گئی اور عزم و حوصلہ خوب جوان ہو گئے۔ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگے: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اپنی قوم کا سربراہ و مقتدا ہوں، وہ سب میری اطاعت و فرمانبرداری کرتے ہیں۔اب میں لوٹ کر ان کی طرف جا رہا ہوں۔اور انھیں اسلام کی دعوت دوں گا۔اب سیدنا طفیل رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ سے نکلے اور بڑی تیزی کے ساتھ اپنی قوم کی طرف روانہ ہوگئے۔ان کے دل میں دین اسلام کی نشر و اشاعت کا جذبہ موجزن تھا۔وہ راستے میں آنے والے پہاڑوں کو سر کرتے جا رہے تھے اور سامنے آنے والی وادیوں کو پار کرتے گئے۔یہاں تک وہ اپنی قوم کے علاقے میں پہنچ گئے۔ |