Maktaba Wahhabi

137 - 158
دوست واحباب۔ہر چیز ہی اپ سیٹ ہوجائے گی۔! سیدنا طفیل رضی اللہ عنہ تھوڑی دیر خاموش سوچتے اور غور و فکر کرتے رہے۔اپنی دنیا و آخرت کے مابین موازنہ کرتے رہے۔پھر اچانک انھوں نے اپنی دنیا کو لات مار دی۔تمام عیش و آرام کو جوتے کی نوک پر رکھ دیا۔جی ہاں! اب وہ دین اسلام پر استقامت اور ثابت قدمی اختیار کریں گے۔جو راضی ہوتا ہے راضی ہو۔جو ناراض و ناخوش ہوتا ہے وہ ناخوش رہے۔اگر آسمان والا میرا اللہ راضی ہو گیا تو زمین والے لوگوں کی ناراضی کی مجھے کوئی پروا نہیں۔ ٭ میرا مال و دولت آسمان والے کے ہاتھ میں ہے۔ ٭ میری صحت و بیماری آسمان والے کے اختیار میں ہے۔ ٭ میرا منصب و مرتبہ اور جاہ و حشمت آسمان والے کی دین ہے۔ ٭ بلکہ میری تو موت وحیات کا مالک بھی آسمان والا ہے۔ جب آسمان والا مجھ سے راضی ہوگیا تو مجھے اس کی کوئی پروا نہیں کہ میں نے متاعِ دنیا سے کیا کھویا ہے؟ اگر اللہ نے مجھ سے محبت کرلی تو پھر دوسرا جو بھی ناراض ہوتا ہے۔ہوتا رہے، اس پر جو بھی نکیر کرے۔کرتا پھرے۔اور اس کا جو کوئی استہزا و مذاق اڑائے۔وہ اڑاتا رہے۔بقولِ شاعر ؎ فَلَیْتَکَ تَحْلُوْ وَالْحَیَاۃُ مَرِیْرَۃُ وَلَیْتَکَ تَرْضٰی وَالْاَنَامُ غِضَابٗ ’’کاش! تو میرے لیے شیریں و خوش مزاج ہو جائے۔اگرچہ باقی ساری دنیا تلخ ہی کیوں نہ رہے اور کاش تو مجھ سے خوش ہو جائے۔اگرچہ باقی ساری مخلوقات مجھ سے ناراض ہی کیوں نہ رہے۔‘‘
Flag Counter