کر دیں۔اور اپنے آپ کو بستر پر گِرا لیا۔اب ماضی کی فلم میری آنکھوں کے سامنے چلنے لگی اور اس کی ایک ایک تصویر میرے دل و دماغ کے پردے پر عیاں ہوتی گئی۔میری والدہ کی آوازیں میرے کانوں بلکہ میرے گرد و پیش میں گونج رہی تھیں: میرے بیٹے! اٹھو۔تمھاری نماز کا وقت نہ نکل جائے۔تیرے ساتھی مسجد میں تیرا انتظار کر رہے ہیں۔ کبھی یہ آوازیں میرے کانوں کے پردوں سے ٹکرانے لگتیں: اے میرے لختِ جگر! میرے پاس ہی رہو، مجھے چھوڑ کر نہ جاؤ، اپنی تعلیم جاری رکھو۔یہ سفراختیار نہ کرو۔ بیٹا! اپنا خیال رکھاکرو۔ حسرتوں، ندامتوں، غموں اور پریشانیوں کے بادل میرے سینے پر چھا گئے اور دل پر ان کے بوجھ کی وجہ سے مجھ سے سانس لینا دشوار ہوگیا۔نافرمانیوں کے واقعات کی ایک رِیل چل پڑی جو ان تمام مناظر کو ایک ایک کرکے میری آنکھوں کے سامنے پیش کرنے لگی۔ میری ماں مجھے سعادتوں اور خوشیوں سے ہمکنار کرنے میں کوشاں رہی اور میں نے ہمیشہ اسے دکھوں سے دو چار کیا۔وہ میرا دامن فرحتوں سے بھرتی رہی اور میں اسے رلاتا رہا۔مجھے ایک ایک کرکے وہ تمام اوقات یاد آنے لگے جب وہ میری منتیں سماجتیں کرتی اور پر اُمید التجائیں کرتی کہ باہر نہ جاؤ۔اور یہ برے کام نہ کرو۔اب میں ان سب پر آہیں بھر رہا اور حسرتوں کے آنسو بہا رہا ہوں۔ |