جس نے مجھے خوابِ غفلت سے بیدار کر دیا۔اس المیے نے میرے مردہ دل کو زندگی دے کر پھر سے دھڑکنا سکھلا دیا۔ اس حادثے نے مجھے غلاظت کی دلدل سے باہر نکال دیا۔ذلالت و کمینگی کے کیچڑ سے باہر کھینچ لیا۔اس نے مجھے گانا وموسیقی کے گندے جوہڑ سے نکال کر صاف ستھری جگہ پر لا پھینکا۔میری ماں فوت ہوگئی۔کس طرح؟ میں کچھ نہیں جانتا۔لیکن اہم بات تو یہ ہے کہ وہ فوت ہو گئی۔لیکن اس سے قبل ہماری خوشی کے اس موقع پر وہ ہمارے ساتھ شریک رہی۔پھر وہ تھوڑا سا ایک طرف کو ہوگئی اور اس نے اپنا تھکا ماندا جسم اپنے بستر پر گرا لیا۔و ہ اپنی زبانِ حال سے گویا کہہ رہی تھی: ’’میرے بچو! الوداع۔اب تم بڑے ہوگئے ہو۔‘‘ خوشی کی یہ تقریب سوگ اور ملال و حزن میں بدل گئی۔سب کے چہرے اداس و خاموش ہوگئے۔لوگوں پر دہشت سی طاری ہوگئی اور اس ناگہانی حادثے نے سب کی زبانیں گنگ کردیں۔ہر آنکھ ہی اشک بار ہوگئی اور دل دہل گئے۔گھر کی ہر طرف سے سسکیوں کی آوازیں اٹھ رہی تھیں۔ہر چیز آہ و بکا میں مصروف تھی۔سوائے میری ماں کے۔وہ اپنے بستر پر انتہائی پر سکون پڑی تھی اور اس کے گرد و پیش کیا ہو رہا ہے۔؟ اسے اس کی کوئی خبر نہیں تھی۔ گھر والے اسے غسل دینے لگے۔تجہیز وتکفین کا مرحلہ طے ہوا تو میں اس کمرے میں داخل ہوا جہاں سفید کفن میں ملبوس اس کی میت پڑی تھی۔میں نے اس کا آخری دیدار کیا۔اس کا چہرہ اسی طرح انتہائی پر سکون و پراطمینان نظر آرہا تھا جس طرح ایامِ حیات میں ہوا کرتا تھا۔ |