Maktaba Wahhabi

485 - 503
بیعت کرنے کی ترغیب دلائی اور ان پر واضح کیا کہ یزید دوسروں سے زیادہ خلافت کا حق دار ہے۔[1] پھر کہنے لگے: ہم نے یزید کی بیعت کر لی ہے اس پر لوگوں نے بھی اس سے بیعت کر لی۔[2] یوں لگتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس خدشے کا ذکر کیا تھا کہ اگر ابن عمر رضی اللہ عنہما وغیرہ نے یزید کی بیعت سے انکار کیا تو انہیں جان سے ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں۔ انہیں یہ خدشہ اہل شام کی طرف سے تھا جن کے نزدیک اس بات کا تصور کرنا بھی ناممکن تھا کہ کوئی شخص امیر المومنین سے کسی ایسے مسئلہ کے بارے میں اختلاف کر سکتا ہے جس پر لوگوں کی اکثریت کا اتفاق ہو چکا ہو۔ بتایا جاتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! یا تو ابن عمر بیعت کریں گے یا پھر میں انہیں قتل کر ڈالوں گا۔ جب یہ خبر عبداللہ بن صفوان کو ملی تو وہ بڑے غضب ناک ہوئے اور اس خبر کی صحت کی صورت میں ان سے لڑنے کے لیے تیار ہو گئے۔[3] مگر پھر جب انہوں نے اس بارے معاویہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا تو انہوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے فرمایا: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو میں قتل کروں گا؟ اللہ کی قسم! میں انہیں قتل نہیں کر سکتا۔[4] الف:… عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما معاویہ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں جب معاویہ رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ پہنچے اور مناسک حج سے فارغ ہو گئے تو انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو اپنے پاس بلایا اور فرمانے لگے: ابن عمر! آپ تو کہا کرتے تھے کہ میں امیر کے بغیر ایک رات بھی گزارنا پسند نہیں کرتا۔ میں تمہیں امت کی وحدت پارہ پارہ کرنے سے خبردار کرتا ہوں اور میں تمہیں لوگوں میں فساد کھڑا کرنے کی اجازت نہیں دوں گا۔ مگر ابن عمر رضی اللہ عنہما نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے انہیں خلفائے راشدین کی بیعت کے طریقہ سے آگاہ کیا اور انہیں بتایا کہ اس وقت ان کے ایسے بیٹے بھی موجود تھے جو یزید سے بہت بہتر تھے مگر انہوں نے اپنے بیٹوں میں وہ چیز نہیں دیکھی جو معاویہ رضی اللہ عنہ یزید میں دیکھ رہے ہیں۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ان کے سامنے اس امر کی بھی وضاحت کر دی کہ وہ مسلمانوں کی وحدت کو ختم نہیں کرنا چاہتے اور یہ کہ امت محمدیہ جس چیز پر اتفاق کرے گی وہ بھی اس سے موافقت کریں گے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی اس بات نے معاویہ رضی اللہ عنہ کا سینہ ٹھنڈا کر دیا اور وہ کہنے لگے: یَرْحَمُکَ اللّٰہُ۔[5] ابن عمر رضی اللہ عنہما نے یزید سے اس شرط پر بیعت کرنے کا وعدہ کیا تھا اگر اس کی بیعت پر مسلمانوں کا اجماع ہو جائے تو[6] معاویہ رضی اللہ عنہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کے لیے ایک لاکھ درہم بھیجے اور پھر جب انہوں نے انہیں یزید کی بیعت کے لیے
Flag Counter