نے اس بیعت اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کے درمیان کسی مشابہت کی نفی کرتے ہوئے فرمایا: ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے اہل خانہ اور خاندان کو چھوڑ کر عدی بن کعب کی اولاد میں سے ایک شخص کا انتخاب کیا تھا اور یہ انتخاب ان کی اہلیت کی بنیاد پر تھا، لہٰذا انہوں نے ان سے بیعت کر لی، انہوں نے مزید فرمایا: یہ بیعت ہرقل اور کسریٰ کی بیعت جیسی ہے۔ اس گفتگو کی وجہ سے عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہ اور مروان کے درمیان نزاع کھڑا ہو گیا۔[1]
دوسری روایت میں آتا ہے کہ انہوں نے فرمایا: بنو امیہ کے لوگو! تم تین چیزوں سے کسی ایک کا انتخاب کر لو، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو اپنا لو، ابوبکر رضی اللہ عنہ کی سنت کو اپنا لو یا پھر عمر رضی اللہ عنہ کی سنت کو اختیار کر لو، تم لوگ خلافت کو قیصریت میں تبدیل کرنا چاہتے ہو کہ جب ایک قیصر مر جائے تو اس کی جگہ دوسرا قیصر لے لے۔[2] اس پر مروان نے انہیں گرفتار کرنے کا حکم دے دیا، مگر وہ بھاگ کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل ہو گئے اور اس طرح مروان انہیں گرفتار کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔[3]
قبل ازیں معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت کے لیے مروان کے نام جو خط لکھا تھا اس میں یزید کا نام نہیں تھا۔ اس خط میں صرف یہ تحریر کیا گیا تھا: میں بوڑھا ہو چکا ہوں اور مجھے ڈر ہے کہ میرے بعد امت اسلامیہ میں اختلاف پیدا ہو جائے گا، میں چاہتا ہوں کہ کسی ایسے آدمی کا انتخاب کروں جو میرے بعد منصب خلافت سنبھال سکے مگر میں تجھ سے مشورہ کیے بغیر کوئی حتمی فیصلہ نہیں کرنا چاہتا، لوگوں کے سامنے میری یہ تجویز پیش کرو اور مجھے ان کے جواب سے مطلع کرو۔ مروان نے لوگوں کو اس سے آگاہ کیا تو انہوں نے کہا: معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ فیصلہ درست کیا، ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے لیے ایسے آدمی کے انتخاب میں کوئی کوتاہی نہ کریں، اور اس کے لیے اپنی تمام کاوشوں کو بروئے کار لائیں۔[4] مگر جب دوسری دفعہ مروان نے یزید کا نام لیا تو اہل مدینہ نے آغاز کار میں ہی اس سے انکار کر دیا اور عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کے جذبات کی ترجمانی کی۔[5]
مذکورہ بالا واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ مروان بن حکم اس مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہا جس کے لیے معاویہ رضی اللہ عنہ نے اسے مکلف ٹھہرایا تھا، چنانچہ انہوں نے خود حجاز آ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے موقف سے آگاہ ہونے کا فیصلہ کیا، چنانچہ آپ ماہ رجب ۵۶ھ میں عمرہ کرنے کے لیے حجاز تشریف لائے۔[6] جب عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہ ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو معاویہ رضی اللہ عنہ کی آمد کا علم ہوا تو وہ مدینہ منورہ سے نکل کر مکہ مکرمہ جا پہنچے۔[7] جب معاویہ رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہما مدینہ منورہ آئے تو انہوں نے لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے انہیں یزید کی
|