بلکہ ان سے بہت بڑے درجے کے ہیں جنہوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہاد کیے اور اللہ نے سب سے بھلائی کا وعدہ کیا ہے جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے آگاہ ہے۔‘‘
ان سے الحسنیٰ کا وعدہ اس لیے ہے کہ انہوں نے غزوہ حنین و طائف میں شرکت کی اور باقاعدہ طور سے دشمنان اسلام سے جنگ لڑی۔[1]
۲۔ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے:
ا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے یہ دعا کی:
((اَللّٰہُمَّ اجْعَلْہُ ہَادِیًا مَہْدِیًّا وَ اہْدِ بِہٖ))[2]
’’یا اللہ! انہیں ہدایت دہندہ اور ہدایت یافتہ بنا اور انہیں ذریعہ ہدایت بنا دے۔‘‘
ان کے حق میں آپ کی ایک دوسری دعا کے الفاظ ہیں:
((اَللّٰہُمَّ عَلِّمْ مُعَاوِیَۃَ الْکِتَابَ وَ الْحِسَابَ وَقِہِ الْعَذَابَ)) [3]
’’اے اللہ! معاویہ( رضی اللہ عنہ ) کو حساب و کتاب سکھا اور انہیں عذاب سے بچا۔‘‘
ب: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک دفعہ میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ اس دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے میں آپ کو دیکھ کر پردے کے پیچھے چھپ گیا۔ آپ نے مجھ سے فرمایا: ’’جاؤ اور معاویہ کو میرے پاس بلا کر لاؤ۔‘‘ میں نے انہیں واپس آ کر بتایا کہ وہ کھانا کھا رہے ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَا اَشْبَعَ اللّٰہُ بَطْنَہٗ)) [4]
’’اللہ اسے سیر شکم نہ کرے۔‘‘
اس حدیث کے تحت امام نووی رقمطراز ہیں: امام مسلم کا اس حدیث کو اس باب[5] کے تحت ذکر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک یہ حدیث معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بددعا کو متضمن نہیں ہے۔ بلکہ یہ ان کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہے۔[6] ابن عساکر مذکورہ بالا حدیث کے تحت لکھتے ہیں: معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل میں وارد احادیث میں سے یہ صحیح ترین حدیث نبوی ہے۔ اس کے بعد مقام صحت ((اَللّٰہُمَّ عَلِّمْ مُعَاوِیَۃَ الْکِتَابَ))اور پھر ((اَللّٰہُمَّ اجْعَلْہُ ہَادِیًا مَہْدِیًّا)) [7] کا ہے۔ اسی حدیث کے تحت امام ذہبی فرماتے ہیں: کہا جا سکتا ہے کہ یہ حدیث معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب پر مشتمل ہے، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
|