شہروں مثلاً حجاز وغیرہ میں بھی یزید کے لیے بیعت لینے میں اہم کردار ادا کیا۔[1]
۳۔ بیعت وفود:… مختلف صوبوں سے وفود کی آمد کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ نے شام میں ایک بڑا اجتماع منعقد کیا، یہ وفود عرب قبائل کے مختلف سرکردہ لوگوں پر مشتمل تھے، مثلاً شام سے: ضحاک بن قیس الفہری، ثور بن معن السلمی، عبداللہ بن عضاۃ الاشعری، عبداللہ بن مسعدہ الفزاری، عبدالرحمن بن عثمان الثقفی، حسان بن مالکبن بحدل الکلبی وغیرہ۔[2]
اہل مدینہ سے عمرو بن حزم الانصاری -آپ اس مجلس کے آخر میں تشریف لائے تھے- اور اہل بصرہ سے احنف بن قیس التمیمی۔ ان تمام زعماء نے گفتگو کے دوران اس تجویز کو قبول کرتے ہوئے اس کی تعریف کی، انہوں نے اس بات کی تاکید کی کہ یہ طریقہ مسلمانوں کو فتنہ و فساد اور خون ریزی سے بچانے کے لیے کارگر ثابت ہو گا اور وہ باہمی اختلاف سے بھی محفوظ رہیں گے[3] اور اس طرح یزید کے ولی عہد ہونے کی بیعت مکمل ہو گئی، مگر یہاں یہ بات بتا دینا ضروری ہے کہ عمرو بن حزم انصاری اس اجتماع میں شریک نہیں ہوئے تھے اور اس کی دو وجوہات تھیں:
(۱) اہل مدینہ اس بیعت سے متفق نہیں تھے بلکہ وہ بڑی سختی کے ساتھ اس کے مخالف تھے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے وفود کے اس اجلاس میں شریک ہونے کے لے اپنا کوئی نمائندہ نہیں بھیجا تھا۔
(۲) معاویہ رضی اللہ عنہ نے عمرو بن حزم کے ساتھ ملاقات کرنے سے انکار کر دیا تھا، اور اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ انہیں اہل مدینہ کی مخالفت کی خبر مل چکی تھی اور یہ کہ عمرو بن حزم کا شمار بھی ان مخالفین میں ہوتا ہے، لہٰذا معاویہ رضی اللہ عنہ کو یہ خوف لاحق تھا کہ اگر وہ اس اجتماع میں شریک ہوئے تو وہ آراء کو منقسم کر دیں گے اور ان کی مخالفت کی وجہ سے ایک ہنگامہ برپا ہو جائے گا، لہٰذا انہوں نے ان سے اجتماع کے آخر میں اور اکیلے میں ملاقات کی، اور پھر وہی کچھ ہوا جس کا معاویہ رضی اللہ عنہ کو خدشہ تھا، مگر انہوں نے ان کی تنقید کو برداشت کیا اور انہیں بھاری عطیہ دے کر رخصت کیا۔[4]
۴۔ اہل مدینہ سے بیعت کا مطالبہ:… معاویہ رضی اللہ عنہ نے دوسرے صوبوں کی طرح اہل مدینہ کی طرف بھی خط لکھ کر اس کے امیر سے یزید کے لیے بیعت لینے کا مطالبہ کیا۔[5] مدینہ منورہ کا امیر مروان بن حکم خطبہ دینے کے لیے اٹھا لوگوں کو اطاعت امیر کی ترغیب دلائی، فتنہ سے خبردار کیا اور انہیں یزید کی بیعت کی دعوت دی، امیر شہر نے کہا کہ یہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی سنت ہے اور اس کے لیے اس نے یہ دلیل پیش کی کہ انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کو ولی عہد مقرر کیا تھا، مگر عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کے اس موقف کی سختی سے تردید کی[6] اور انہوں
|