ولی عہدی کوئی معمولی بات نہیں تھی اور اس کی قبل ازیں کوئی مثال بھی نہیں ملتی تھی۔
ھ: زیاد امت کے بارے میں یزید سے ڈرتا تھا، اسی لیے تو اس نے کہا تھا، اسلام کا تعلق اور ذمہ داری بہت بڑی چیز ہے، میں دیکھتا ہوں کہ یزید کے مزاج میں کاہلی اور سہل انگاری ہے، مزید یہ کہ وہ شکار کا گرویدہ ہے۔
و: زیاد نے آخرکار معاویہ رضی اللہ عنہ کے نام خط لکھ دیا مگر انہیں عجلت پسندی سے اجتناب کرنے کے لیے کہا اور جسے انہوں نے قبول کر لیا۔[1]
اس حوالے سے معاویہ رضی اللہ عنہ نے احنف بن قیس سے بھی مشاورت کی تھی۔ مروی ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے جب اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد مقرر کیا تو اسے ایک سرخ رنگ کے خیمہ میں بٹھا دیا، لوگ آتے، معاویہ رضی اللہ عنہ کو سلام کہتے ہیں اور پھر یزید کی طرف متوجہ ہوتے۔ یہاں تک کہ ایک آدمی آیا اور اس نے بھی ایسا ہی کیا، پھر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس دوبارہ آیا اور کہنے لگا: امیر المومنین! مجھے علم ہے کہ اگر تم نے اسے مسلمانوں کے امور کا نگران نہ بنایا تو ان اُمور کو ضائع کر دو گے۔ اس وقت احنف بن قیس بھی وہاں بیٹھے تھے، ان سے معاویہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: ابو بحر! آپ کوئی بات نہیں کر رہے؟ وہ کہنے لگے: اگر میں جھوٹ بولوں تو اللہ سے ڈرتا ہوں اور اگر سچ کہوں تو پھر تم سے ڈرتا ہوں۔ اس پر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہیں اطاعت گزاری کی وجہ سے جزائے خیر عطا فرمائے اور پھر انہیں کئی ہزار دینے کا حکم دیا، جب وہ باہر نکلے تو دروازے پر وہی شخص آپ سے ملا اور کہنے لگا: ابو بحر! میں بخوبی جانتا ہوں کہ یہ (معاویہ رضی اللہ عنہ ) اور ان کا بیٹا اللہ کی مخلوق میں سے بدترین لوگ ہیں۔ انہوں نے یہ اموال دروازوں اور تالوں میں بند کر رکھے ہیں اور جنہیں ہم اس طرح ہی نکال سکتے ہیں اس پر احنف کہنے لگے: خاموش ہو جا۔ اس لیے کہ دو چہروں والا اس لائق ہے کہ وہ اللہ کے نزدیک باعزت اور پسندیدہ نہ ہو۔[2]
۱۔ اہل شام کا یزید کی بیعت کو قبول کرنا:… معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس بات کا مکمل ادراک تھا کہ اہل شام منصب خلافت کو بنو امیہ میں باقی رکھنے کے حریص ہیں۔ اہل شام کے لیے خلافت میں وراثت کوئی نئی بات نہیں تھی، وہ اپنے اوپر بیزنطیوں کی حکومت کے ایام میں اس سے بخوبی آگاہ ہو چکے تھے۔ بلکہ بعض عراقی بھی ایک خاص نکتہ نظر سے اس تصور کو قبول کرنے کے لیے تیار تھے، اور وہ یوں کہ ان کے خیال میں اہل بیت منصب خلافت کے زیادہ حق دار ہیں اور یہ کہ خلافت انہیں میں ہی موجود رہنی چاہیے، اس حوالے سے وہ فتح اسلامی سے قبل اس علاقے پر ساسانی نظام حکومت سے متاثر تھے۔[3]
اہل شام نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے اس رغبت کو پورا کر دیا کہ یزید ان کا ولی عہد ہو، اور انہوں نے یزید کی بیعت پر اتفاق کر لیا اور انہیں اس کے لیے کسی قسم کی مخالفت کا سامنا نہ کرنا پڑا۔[4] اس کے بعد اہل شام نے دیگر
|