Maktaba Wahhabi

486 - 503
بلایا تو وہ کہنے لگے: تمہارا خیال ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما یہی کچھ چاہتے تھے؟ پھر تو میرا دین بڑا سستا ہے۔[1] عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے نزدیک بیعت کے بدلے میں درہم وصول کرنا جائز نہیں تھا، اس لیے کہ یہ بات رشوت کے زمرے میں آتی ہے۔ اگر بیعت حق ہے تو ان کے لیے حق کی اجرت لینا جائز نہیں ہے اور اگر وہ باطل ہے تو پھر مال کے بدلے اس شخص سے بیعت کرنا جائز نہیں ہے جو اس کا استحقاق نہ رکھتا ہو۔[2] حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا موقف یہ تھا کہ حکومت وراثت کے انداز میں منتقل نہیں ہوتی اور نہ ہی مال کے بدلے بیعت لینا جائز ہے۔[3] ب:… عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں: ابن عمر رضی اللہ عنہما معاویہ رضی اللہ عنہ کی مجلس سے باہر گئے تو انہوں نے عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بلا لیا اور ان سے اس موضوع پر گفتگو شروع کر دی، مگر انہوں نے انہیں بات کرنے سے روک دیا اور انہیں بڑے سخت لہجے میں جواب دیتے ہوئے بتایا کہ وہ یزید کی بیعت کا راستہ روکیں گے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ یہ فیصلہ شوریٰ کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو جنگ کی دھمکی بھی دی، پھر جب وہ اٹھ کر جانے لگے تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یا اللہ! تو جس چیز کے ساتھ چاہے مجھے ان سے کفایت کر، معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے مطالبہ کیا کہ وہ حوصلہ مندی کا مظاہرہ کریں اور اہل شام کے سامنے بیعت کا اعلان نہ کریں ورنہ وہ انہیں قتل کر دیں گے۔ جب لوگ یزید سے بیعت کر لیں تو اس کے بعد ان کی جو بھی رائے ہو اس کا اظہار کر لیں۔[4] حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے زیادہ مناسب یہی تھا کہ وہ اہل شام سے یہی چاہتے کہ جو ان کی مخالفت کرے اہل شام اس سے تعرض نہ کریں۔ ج:… عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما: پھر انہوں نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو طلب کیا اور انہیں اس امر سے متہم کیا کہ یزید کی بیعت میں اصل رکاوٹ وہ ہیں اور یہ کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما اور ابن ابوبکر رضی اللہ عنہ جو کچھ کر رہے ہیں اس کے پیچھے بھی انہی کا ہاتھ ہے۔ مگر ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے ان کے اس موقف کی تردید کرتے ہوئے ان سے مطالبہ کیا کہ اگر وہ یزید کی بیعت کے لیے مُصر ہیں تو خود خلافت سے دست بردار ہو جائیں۔ اگر وہ ایسا کرتے ہوئے اپنی جگہ یزید کو خلیفہ مقرر کر دیں تو میں اس کی بیعت کر لوں گا۔ انہوں نے موجودہ صورت حال میں یزید کی عدم بیعت پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے استدلال کیا کہ: ’’ایک ہی وقت میں دو آدمیوں کی بیعت کرنا جائز نہیں ہے۔‘‘[5] پھر فرمایا: معاویہ! مجھے یہ خبر تم نے ہی دی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب زمین میں دو خلیفے سامنے آ جائیں تو ان میں سے ایک کو قتل کر ڈالو۔‘‘[6]
Flag Counter