Maktaba Wahhabi

361 - 503
میں اس کا خون بہا دوں گا۔‘‘[1]مگر وہ آگے چل کر کہتا ہے: ’’میں کسی ضرورت مند سے روپوش نہیں ہوں گا اگرچہ وہ رات کے اندھیرے میں آ کر میرا دروازہ کھٹکھٹائے۔‘‘[2] خطبہ میں وارد ان تناقضات کا زیاد جیسے آدمی سے صدور بڑی انوکھی سی بات ہے، جبکہ اس کی فصاحت و بلاغت کا ہر طرف شہرہ تھا۔ یہ بات ایک دوسرے قضیہ کی طرف بھی ہماری راہنمائی کرتی ہے اور وہ یہ کہ اس امر کا احتمال بھی موجود ہے کہ بصرہ آمد کے موقع پر زیاد کے جس خطبہ کی نص ہمارے سامنے موجود ہے وہ کئی خطبات سے عبارت ہو جنہیں ایک دوسرے میں خلط ملط کر دیا گیا، ہمارے اس موقف کی تائید عبداللہ بن الاہتم اور احنف بن قیس کی طرف سے اس خطبہ کی تعریف سے بھی ہوتی ہے، جبکہ یہ خطبہ تعریف کا نہیں بلکہ تنقید کا مستحق تھا اس لیے کہ اس میں جاہلیت کے حکم کو اللہ تعالیٰ کے حکم پر مقدم رکھا گیا تھا۔[3] شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: میں نے جس شخص کو بھی خوبصورت گفتگو کرتے سنا دل سے چاہا کہ وہ خاموش ہو جائے اور یہ اس خوف کے پیش نظر ہوتا کہ اس سے کوئی غلطی سرزد نہ ہو جائے بجز زیاد کے، وہ جس قدر بھی زیادہ گفتگو کرتا عمدہ گفتگو کرتا، بڑی ہی عمدہ گفتگو کرتا۔[4] شعبی کی طرف سے زیاد کی طلاقت لسانی کی یہ تعریف زیاد کے مذکورہ بالا خطبہ بتراء کے بارے میں شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہے۔[5] ھ:… زیاد کا اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمات حاصل کرنا: زیاد بن سمیہ نے متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی خدمات سے فائدہ اٹھایا۔ مثلاً اس نے عمران بن حصین خزاعی کو بصرہ کا قاضی[6] اور حکم بن عمرو غفاری کو خراسان کا حاکم مقرر کیا،[7] اس کے دور میں سمرہ بن جندب، انس بن مالک، عبدالرحمن بن سمرہ، عبداللہ بن فضالہ لیثی،[8] عاصم بن فضالہ[9] اور زرارہ بن اوفی حرشی[10] رضی اللہ عنہم مختلف سرکاری عہدوں پر فائز رہے۔ آخر الذکر کی بہن لبابہ زیاد کے نکاح میں تھی۔ [11] و:… عراق میں زیاد کی سیاست: زیاد بن سمیہ ، عبداللہ بن عامر اور مغیرہ بن شعبہ کے بعد بصرہ اور کوفہ کا حکمران رہا۔ زیاد نے دولت امویہ کے مشرقی بازو میں بڑی بڑی ضروری اصلاحات کیں، یہ شخص بڑی انتظامی صلاحیتوں کا مالک تھا، [12] اس نے پہلے (۴۵-۵۰ھ) کے دوران بصرہ میں متعدد قوانین اور انتظامی فیصلے صادر کیے اور کئی اصلاحات کیں۔ پھر جب (۵۰-۵۳ھ) کے دوران بصرہ اور کوفہ دونوں شہر اس کی ماتحتی میں کر دئیے گے تو
Flag Counter