سکھاتے ہیں، وہ تمہاری جائے پناہ ہیں جن کا تم سہارا رکھتے ہو۔ اگر تم صحیح ہو جاؤ گے تو وہ بھی صحیح ہو جائیں گے، اپنے دلوں میں ان سے بغض نہ رکھو اس سے تم ہمیشہ غم و غصہ میں مبتلا رہو گے اور تمہاری کوئی ضرورت بھی پوری نہیں ہو گی، کسی ایسی حاجت کی خواہش نہ کرو کہ اگر اسے پورا کر دیا جائے تو تمہارے لیے ضرر رساں ثابت ہو۔ میں اللہ سے سوال کرتا ہوں کہ وہ ہر ایک کا ہر ایک کے مقابلے میں حامی و ناصر ہو۔ جب دیکھو کہ میں تمہارے لیے کوئی حکم جاری کرنا چاہتا ہوں تو اسے آسانی سے جاری ہونے دینا اور اس کی مزاحمت سے باز رہنا۔[1]
پھر احنف بولا: امیر! تم نے جو کچھ کہا خوب کہا، مگر آزمائش کے بعد ستائش اور عطاء کے بعد سپاس چاہتے ہیں اور ہم ہرگز تعریف نہیں کریں گے یہاں تک کہ آزمائش کر لیں۔ زیاد نے کہا: تو نے درست کہا۔[2]
زیاد کا یہ خطبہ تاریخ کے مشہور ترین خطبات میں سے ایک ہے۔ اگرچہ اس خطبہ کو بہت سارے مصادر نے ذکر کیا ہے مگر یہ کسی ایسی صحیح سند کے ساتھ وارد نہیں ہے جس کی بنیاد پر قاری اس کے مضمون سے مطمئن ہو سکے، خصوصاً ایسے حالات میں کہ یہ متعدد اعتراضات اور واضح تناقضات پر مشتمل ہے جس سے اس کی زیاد کی طرف نسبت کی صحت مزید کمزور ہو جاتی ہے۔ ان اعتراضات اور تناقضات کی ڈاکٹر خالد الغیثn نے نشان دہی کی ہے۔[3] مثلاً:
اس خطبہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بصرہ میں فسق و فجور کا دور دورہ تھا اور اس میں بداخلاقی کے اڈوں کی بہتات تھی۔ مگر زیاد کی بصرہ آمد پر اس کی حالت کے بارے میں اس کلام منکر کی تردید اس حقیقت سے ہوتی ہے جس پر وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور سے اپنی تاسیس کے دن سے قائم تھا، اور وہ حقیقت یہ تھی کہ اسے ایسے مرکز کی حیثیت حاصل ہو گئی جہاں سے اسلامی فتوحات کے تسلسل کو قائم رکھنے اور مفتوحہ شہروں اور علاقوں میں اسلام کی نشر و اشاعت کے لیے اسلامی لشکر روانہ ہوا کریں گے۔ اس مقصد کے پیش نظر ایک سو پچاس سے زیادہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم بصرہ میں آ کر آباد ہوئے اور دعوت الی اللہ اور لوگوں کو اپنی تعلیم سے آراستہ کرنے کی ذمہ داری اپنے سر لی، پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ یہ برائیاں اس معاشرے میں عام ہو جائیں جس کی بنیاد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین علیہما السلام ہوں اور وہ انہیں روکنے سے قاصر رہیں؟ مزید برآں بصرہ میں خوارج جیسے لوگوں کا وجود جو کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کی انجام دہی میں بڑی شہرت رکھتے تھے یہ بھی اس امر کی دلیل ہے کہ بصرہ کے معاشرہ میں ان برائیوں کا کوئی وجود نہیں تھا جن کا زیاد کے خطبہ میں ذکر کیا گیا ہے۔[4]
زیاد کے اس خطبہ میں تضاد کی ایک مثال یہ ہے کہ وہ ایک طرف تو یہ کہہ رہا ہے کہ ’’زمانہ جاہلیت کے دعویٰ سے اجتناب کرنا، جس کسی نے بھی یہ دعویٰ کیا میں اس کی زبان کاٹ دوں گا۔‘‘[5] جبکہ وہ اسی خطبہ میں کہتا ہے: ’’اللہ کی قسم! میں ولی کو ولی کی جگہ پکڑوں گا اور مقیم کو مسافر، آنے والے کو جانے والے اور تندرست کو بیمار کے بدلے دھر لوں گا۔‘‘[6] اسی خطبہ میں وہ یہ کہتا ہے: ’’شب گردی سے بچو میرے پاس ایسے جس شخص کو بھی لایا جائے گا
|