Maktaba Wahhabi

358 - 503
بلکہ انہوں نے امام مالک رحمہ اللہ کے مذہب کی رو سے درست کام کیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ پھر صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس کا انکار کیوں کیا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ایک اجتہادی مسئلہ تھا[1] اور واقعات اس امر کا اثبات کرتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ زیادکے اس حق کو کھلے دل سے تسلیم کرتے تھے۔[2] بصرہ میں زیاد کا مشہور خطبہ بتراء: جب ۴۵ھ میں زیاد کو بصرہ کا حاکم مقرر کیا گیا تو اس نے خطبہ بتراء دیا[3] جس میں اس نے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان نہ کی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس نے اس کا آغاز حمد باری تعالیٰ سے کرتے ہوئے کہا: ہم اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان کے شکر گزار ہیں اور اس سے مزید نعمتوں کے خواستگار ہیں۔ ہمارے اللہ! جس طرح تو نے ہمیں اپنی نعمتوں سے نوازا ہے اسی طرح ہمیں ان کا شکر ادا کرنے کی بھی توفیق عطا فرما۔ اما بعد! سخت جاہلیت، اندھا دھند گمراہی اور فسق و فجور جو جہنم کو ہمیشہ کے لیے مشتعل کر دیتے ہیں یہ وہ بڑے بڑے جرائم ہیں جن کا تمہارے نالائق لوگ ارتکاب کرتے ہیں اور جن کی لپیٹ میں عقل مند لوگ بھی آ جاتے ہیں۔ جب ان افعال سے بڑے پرہیز نہیں کرتے تو بچے ان سے وہی باتیں سیکھنے لگ جاتے ہیں، تم نے تو گویا آیات ربانی کو سنا ہی نہیں اور کتاب اللہ کو پڑھا ہی نہیں اور تم نے سنا ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اطاعت گزاروں کے لیے کیا اجر و ثواب اور اپنے نافرمانوں کے لیے کون سا دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے، کیا تم بھی ان لوگوں کی طرح بن جاؤ گے جن کی آنکھوں میں دنیا کی حرص نے خاک جھونک دی اور جن کے کانوں کو شہوات نے بند کر دیا اور جنہوں نے باقی کو چھوڑ کر فانی کو پسند کر لیا؟ تم دیکھتے نہیں کہ تم نے اسلام میں وہ بدعات جاری کر دیں جن کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی، تم نے خرافات کے دروازے کھلے رہنے دئیے اور کمز ور لوگوں کو دن رات لٹنے دیا جن کی تعداد کچھ کم نہیں ہے۔ کیا تم میں سے کوئی ایسا نہ تھا جو باغیوں کو دن کی لوٹ مار اور شب گردی سے روک سکتا، تم نے قرابت داروں کا تو بڑا خیال رکھا مگر دین سے دور رہے۔ تمہارے پاس کوئی عذر نہیں مگر معذور بنے پھرتے ہو اور اوباشوں کی پردہ پوشی کرتے ہو۔ تم میں سے ہر شخص اپنے نالائق کا دفاع کرتا ہے اور وہ اس شخص کا سا کردار ادا کرتا ہے جسے نہ کسی عذاب کا ڈر ہو اور نہ قیامت کا اندیشہ، تم نالائق اور احمق لوگوں کے نقش قدم پر چلتے ہو تو پھر خود کیسے لائق اور دانا بن گئے، تم ہمیشہ ان کا دفاع کرتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے اسلام کی حرمت کو پامال کر دیا اور پھر تمہارے پس پشت گوشہ رسوائی میں چھپ گئے، میرے لیے اس وقت تک کھانا پینا حرام ہے جب تک میں ان کی پناہ گاہوں کو نیست و نابود نہ کر دوں اور انہیں جلا کر راکھ نہ بنا ڈالوں، میں دیکھتا ہوں کہ اس امر کا انجام اسی طرح صحیح ہو گا جس طرح اس کا آغاز صحیح ہوا تھا، ایسی نرمی کی جائے گی جس میں کمزوری نہ ہو اور ایسی سختی کی جائے گی جس میں جبر اور زیادتی نہ ہو۔ و اللہ! میں غلام کا مؤاخذہ آقا
Flag Counter