Maktaba Wahhabi

357 - 503
کے ساتھ حاملہ ہو گئی، مورخین ذکر کرتے ہیں کہ خود ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے اور کئی دوسرے لوگوں کے سامنے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں اس کے جوان ہونے کے بعد اس بات کا اعتراف کیا تھا۔[1]ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ابوسفیان رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ زیاد ان کے نطفہ سے ہے۔[2] پھر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانہ میں ابو مریم سلولی نے زیاد کے لیے اس نسب کی شہادت دی۔ ابو مریم صحابی تھے اور زمانہ جاہلیت میں طائف میں شراب فروخت کیا کرتے تھے اور انہوں نے سمیہ اور ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا ملاپ کروایا تھا اور اس وقت یہ عام سی بات تھی۔[3] بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس نسب کا معاملہ بڑی شہرت حاصل کر چکا تھا یہاں تک کہ بصرہ کے ایک آدمی نے زیاد کے لیے اس کی شہادت بھی دے دی۔[4] اگر صورت حال یہ ہے تو پھر یہ قدیم دعویٰ ہے نہ کہ مغیرہ بن شعبہ کے مشورہ پر معاویہ اور زیاد کے درمیان طے پانے والے سودے کا ایک حصہ۔ نیز راویوں کی اختراع کردہ دیگر تفصیلات بھی درست نہیں ہیں۔[5] امام اہل مدینہ، امام مالک بن انس اپنی کتاب ’’المؤطا‘‘ میں زیاد کا ذکر کرتے ہوئے اسے زیاد بن ابوسفیان کے نام سے یاد کرتے ہیں نہ کہ زیاد بن سمیہ کے نام سے۔ یہ عصر بنو عباس کی بات ہے،[6] اس وقت حکومت بھی ان کی تھی اور حکم بھی انہی کا چلتا تھا مگر انہوں نے اس میں نہ تو کوئی تبدیلی کی اور نہ اس سے انکار کیا۔ چونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے، لہٰذا اس پر اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔[7] جہاں تک اس الحاق کا نص حدیث کے ساتھ تعارض کا تعلق ہے تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا دفاع کرنے والوں کا کہنا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں کئی قسم کے نکاح کیے جاتے تھے، اس کی ایک قسم یہ بھی تھی کہ کچھ لوگ کسی پیشہ ور عورت کے ساتھ جماع کرتے پھر جب وہ بچے کو جنم دیتی تو ان میں سے جسے چاہتی اس کے ساتھ بچے کو ملحق کر دیتی مگر اسلام نے اس نکاح کو حرام قرار دے دیا۔ مگر کسی بھی قسم کے نکاح کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے کو جس بھی باپ کی طرف منسوب کر دیا گیا اسے تسلیم کیا جاتا اور ان میں سے کسی بھی چیز میں کوئی تفریق روا نہ رکھی جاتی۔ اس سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ سمجھا کہ یہ ان کے لیے جائز ہے اور انہوں نے جاہلیت اور اسلام میں الحاق کے بارے میں کوئی فرق نہ کیا۔[8] امام مالک رحمہ اللہ اس بات کو جائز قرار دیتے ہیں کہ بھائی اپنے بھائی کو اپنے نسب میں شامل کرتے ہوئے یہ کہے کہ وہ میرے باپ کا بیٹا ہے۔ بشرطیکہ اس نسب میں اس سے تنازع کرنے والا کوئی نہ ہو۔ حارث بن کلاہ (جس کی سمیہ لونڈی تھی) نے زیاد کے بارے میں تنازع نہیں کیا تھا اور نہ ہی وہ اس کی طرف منسوب تھا، وہ ایک پیشہ ور لونڈی کا بیٹا تھا جو اس کے بستر پر پیدا ہوا۔ اس کا جو بھی دعویٰ کرتا وہ اس کا تھا الا یہ کہ اس سے وہ شخص معارضہ کرتا جو اس کا اس سے زیادہ حق دار ہوتا، لہٰذا اس بارے میں معاویہ رضی اللہ عنہ پر کوئی اعتراض نہیں آتا
Flag Counter