Maktaba Wahhabi

187 - 503
عظیم خلیفہ کے ساتھ مخلص تھے۔ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کی شہادت عہد خلافت راشدہ کے لیے ایک بھاری ضرب ثابت ہوئی جو بعدازاں اس کے زوال کا ایک اہم سبب ثابت ہوئی۔ ۶۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کی شخصیت:… اس امر کے باوجود کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ چالیس ہزار سے زائد ایسے لوگ تھے جنہوں نے ان سے موت پر بیعت کر رکھی تھی ان کا معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں خلافت سے دست بردار ہو جانا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس کی اہلیت رکھتے تھے اگر ایسا نہ ہوتا تو نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم منصب خلافت ان کے سپرد نہ کرتے۔[1] مؤرخین اور سوانح نگاروں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل کثیرہ اور اعمال جلیلہ کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے جن کا ذکر ان شاء اللہ اس کتاب میں اپنی جگہ پر آئے گا۔ ۷۔ عراقی لشکر اور اہل کوفہ کا اضطراب:… خوارج کے ظہور نے امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کو کمزور کرنے میں خاصا کردار ادا کیا، جنگ جمل، جنگ صفین اور نہروان کی جنگ نے اہل عراق کو جنگوں سے اکتا دیا اور وہ ان سے متنفر ہو گئے۔ خصوصاً اہل شام کے ساتھ لڑی گئی جنگ صفین نے انہیں شدید طور پر متاثر کیا تھا، اہل شام کی یہ جنگ دوسری جنگوں جیسی نہیں تھی اور یہ ان کے ذہنوں کے ساتھ چپک کر رہ گئی تھی، اس جنگ نے کتنے ہی بچوں کو یتیم بنایا اور کتنی ہی عورتوں کے سہاگ لوٹے مگر اس سے ان کا کوئی بھی مقصد حاصل نہ ہو سکا۔ اگر وہ صلح یا تحکیم نہ ہوتی جسے امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے خوش دلی سے قبول کیا تھا تو پھر عالم اسلام پر ایسی آفت ٹوٹتی جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ اہل عراق علی رضی اللہ عنہ کو حق پر سمجھتے تھے[2] مگر ان کی طرف سے دوبارہ ان کے ساتھ شام روانہ ہونے سے کم دلی کا مظاہرہ کرنے کی وجہ سے حضرت حسن رضی اللہ عنہ خلافت سے دست بردار ہو گئے اور وہ ایسا کیوں نہ کرتے جبکہ عراقی لشکر اضطرابی کیفیت سے دوچار تھا اور اہل کوفہ غیر یقینی صورت حال سے۔[3] مگر اس بات کا اطلاق سب لوگوں پر درست نہ ہو گا، حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے لشکر کو کچھ ایسے لوگوں سے تقویت دینا ممکن تھا جو جنگ کرنے کی پوری استعداد رکھتے تھے جن میں سے خاص طور پر قیس بن سعد خزرجی اور دیگر قائدین سرفہرست ہیں۔[4] ۸۔ لشکر معاویہ رضی اللہ عنہ کی قوت:… دوسری جانب معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ سے ہی اہل عراق کو کمزور کرنے کے لیے سری اور اعلانیہ طور پر مختلف وسائل کا استعمال کر رہے تھے۔ اس کے لیے انہوں نے خاص طور سے علوی لشکر کی پھوٹ اور تقسیم سے فائدہ اٹھایا جبکہ کئی ایک عوامل نے ان کی حربی قوت میں مزید اضافہ کر دیا، مثلاً: ان کا لشکر ان کا اطاعت گزار تھا، تمام اہل شام ان کی قیادت پر متفق تھے، ولایت شام میں
Flag Counter