۳۔ مسلمانوں کے خونوں کو بچانا:… حسن بن علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: مجھے یہ ڈر ہے کہ قیامت کے دن ستر ہزار یا اس سے کم و بیش لوگ اس حال میں آئیں کہ ان کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو اور وہ سب کے سب اللہ سے مدد کے خواست گار ہوں۔[1] انہوں نے مزید فرمایا: خبردار! اللہ کا امر واقع ہو کر رہے گا اور اسے کوئی روک نہ سکے گا اگرچہ لوگ اسے ناپسند کریں۔ مجھے یہ پسند نہیں کہ میری وجہ سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا معمولی سا خون بھی بہایا جائے۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ میرے لیے نفع بخش کیا ہے اور ضرر رساں کیا۔[2]
۴۔ وحدت امت کی خواہش:… صلح کے ایک مرحلہ پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: لوگو! میرے دل میں کسی مسلمان کے خلاف کینہ نہیں ہے۔ میں تمہارے لیے وہی کچھ چاہتا ہوں جو اپنے لیے چاہتا ہوں، میری ایک رائے ہے، اسے ردّ نہ کرنا جس جمعیت کو تم ناپسند کرتے ہو وہ اس تقسیم سے بہتر ہے جسے تم پسند کرتے ہو۔[3] پھر انہوں نے لوگوں کو وحدت امت جیسے عظیم مقصد پر تحریص دلائی، آپ نے مسلمانوں کے خون بچانے اور ان مفاسد سے بچنے کے لیے خلافت سے دست بردار ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا جو مستقبل میں امت کو لاحق ہو سکتے تھے۔ اور یہ کہ اگر وہ اپنے گزشتہ موقف پر ڈٹے رہے تو اس سے فتنہ جاری رہے گا، خون ریزی اور قطع رحمی ہو گی، راستے پرخطر رہیں گے اور سرحدیں غیر محفوظ ہو کر رہ جائیں گی، بحمد اللہ ان کی خلافت سے دست برداری کی وجہ سے وحدت امت متحقق ہو گئی یہاں تک کہ اس سال کو ’’عام الجماعۃ‘‘ کے نام سے موسوم کر دیا گیا۔[4]
۵۔ امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت:… حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ صلح پر آمادہ کرنے والا اہم ترین سبب ان کے والد گرامی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت تھی۔ ان کے اچانک قتل نے ان کی نفسیات پر گہرے اثرات چھوڑے اور انہیں بہت زیادہ غم ناک کر دیا۔ امیر المومنین کو بلا کسی جواز کے ناحق قتل کر دیا گیا، خوارج نے نہ تو ان کے سابق الاسلام ہونے کا کوئی احترام کیا اور نہ ان کی ان خدمات جلیلہ کا ہی کوئی لحاظ کیا جو انہوں نے اسلام کے لیے پیش کی تھیں، ان کی حیات مبارکہ عمل و کردار سے عبارت تھی، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ مینارہ رشد و ہدایت اور حق و باطل میں امتیاز کرنے والے تھے، یہ ایک طبعی سی بات تھی کہ مسلمان ان کی شہادت سے شدید طور سے متاثر ہوئے، ان کی شہادت مسلمانوں پر ایک بہت بڑی آفت بن کر ٹوٹی اور اس کے غم نے انہیں ہر طرف سے گھیر لیا، ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور ان کی زبانیں ان کی تعریف و ستائش … ان کی شہادت کی وجہ سے حضرت حسن رضی اللہ عنہ اہل عراق سے بددل ہو گئے، جن عراقیوں کو امیر المومنین رضی اللہ عنہ کے مکارم اخلاق اور شرف صحبت نے جی بھر کر نوازا تھا۔ انہیں فتنوں اور طمع و لالچ نے گمراہ کر دیا اور وہ صراط مستقیم سے منحرف ہو گئے، ان سے وہ چند سچے لوگ مستثنیٰ ہیں جو اپنے دین اور
|