Maktaba Wahhabi

188 - 503
انہیں انتظامی تجربہ حاصل تھا، ان کے مالی ذرائع مستحکم تھے اور وہ ان اہداف کے حصول کے لیے مال خرچ کرنے میں کوئی حرج نہ سمجھتے جنہیں امت کے لیے مفید خیال کرتے۔ ثالثاً:… صلح کی شرائط تاریخی کتب اور جدید مصادر اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان یہ صلح طرفین کی طرف سے وضع کردہ شرائط کے مطابق ہوئی تھی۔ یہ شرائط مختلف کتب تاریخ میں ادھر ادھر بکھری پڑی ہیں۔ بعض علماء نے انہیں جمع اور مرتب کرنے کی کوشش کی ہے، ان میں سے اہم ترین شرائط مندرجہ ذیل ہیں: ۱۔ کتاب اللہ، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرت خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم پر عمل کرنا:… جن علماء نے اس شرط کا ذکر کیا ہے ان میں ابن حجر ہیثمی بھی شامل ہیں۔ وہ فرماتے ہیں: معاویہ رضی اللہ عنہ نے حسن رضی اللہ عنہ سے اس شرط پر صلح کی کہ وہ مسلمانوں کی ولایت ان کے سپرد کر دیں گے اور وہ کتاب اللہ، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی سیرت کے مطابق کام کریں گے۔[1] حتیٰ کہ بعض شیعہ کتب میں بھی اس شرط کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما حضرات ابوبکر رضی اللہ عنہ ، عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ کی اس حکومت کی تعظیم و توقیر کیا کرتے تھے، اسی لیے کہ انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ صلح کی ایک شرط یہ رکھی کہ وہ کتاب و سنت کے ساتھ ساتھ خلفاء راشدین کی سنت کے مطابق نظام حکومت چلائیں گے۔[2] ایک دوسرے نسخہ میں ’’خلفاء صالحین‘‘ کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔[3] ۲۔ اموال:… امام بخاری اپنی صحیح میں ذکر کرتے ہیں کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمن بن سمرۃ اور عبداللہ بن عامر بن کریز پر مشتمل معاویہ رضی اللہ عنہ کے وفد سے کہا: ہم عبدالمطلب کی اولاد کو خلافت کی وجہ سے بہت سا مال و زر حاصل ہوا ہے، میرے لیے اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟ انہوں نے کہا: اس کے ذمہ دار ہم ہیں۔[4] اس اثر میں حسن رضی اللہ عنہ بتا رہے ہیں کہ انہوں نے اور بنو عبدالمطلب سے دوسرے لوگوں نے گزشتہ ایام میں کافی سارا مال حاصل کیا، انہوں نے یہ بات اس لیے کی تاکہ معاویہ رضی اللہ عنہ ان سے اس مال کی واپسی کا مطالبہ نہ کریں، انہوں نے مستقبل میں ان سے مال و زر کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔[5] رہیں وہ روایات جن میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ ہر سال حسن رضی اللہ عنہ کو دس لاکھ اور ان کے بھائی حسین رضی اللہ عنہ کو بیس لاکھ درہم ادا کیا کریں گے اور بنو ہاشم کو بنو عبدشمس سے زیادہ عطیات سے نوازا کریں گے تو یہ روایات اور ان کی تحصیل و تشریح میں جو کچھ کہا گیا ہے ناقابل قبول اور غیر معتمد علیہ ہے۔ اس سے تو یہ لگتا ہے کہ گویا حسن رضی اللہ عنہ نے خلافت معاویہ رضی اللہ عنہ کو فروخت کی ہو۔ نیز ان روایات سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ حسن رضی اللہ عنہ کو اپنے ذاتی
Flag Counter