Maktaba Wahhabi

183 - 503
کر دیا۔ مگر انہوں نے ان تمام مشکلات پر قابو پا لیا اور اپنے یہ مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہے کہ مسلمانوں کا خون محفوظ رہے، امت متحد رہے، راستے پرامن ہوں اور فتوحات اسلامیہ کی تحریک کو نئے سرے سے شروع کیا جائے … یہ سب چیزیں ان کی قائدانہ صلاحیتوں پر دلالت کرتی ہیں۔ ۵۔ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے حسن رضی اللہ عنہ کی فورسز کا اندازہ لگانا:… صحیح بخاری میں ہے: حسن بن علی رضی اللہ عنہما پہاڑوں جیسے لشکروں کے ساتھ معاویہ رضی اللہ عنہ کے بالمقابل کھڑے نظر آئے تو عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہنے لگے: میرے خیال میں یہ سپاہ اس وقت تک واپس نہیں جائیں گی جب تک وہ اپنے مدمقابل معاویہ رضی اللہ عنہ کی سپاہ کو قتل نہ کر ڈالیں۔ یہ سن کر معاویہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: عمرو! اگر انہیں قتل کر دیا گیا تو مجھے لوگوں کے امور اور ان کی عورتوں اور بچوں کی ضمانت کون دے گا؟ پھر انہوں نے خاندان قریش سے عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عامر بن کریز رضی اللہ عنہ کو ان کے پاس بھیجا اور ان سے کہا: اس آدمی کے پاس جائیں، ان سے بات چیت کریں، انہیں پیش کش کریں اور ان سے گزارشات کریں۔[1] ا:… عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ جیسے مشہور اور تجربہ کار سیاسی اور فوجی کمانڈر کی طرف سے اعتراف کیا جا رہا ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے لشکر واپس جانے سے پہلے پہلے معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر کو نیست و نابود کر ڈالیں گے۔ ب:… خود معاویہ رضی اللہ عنہ بھی ان کی عسکری صلاحیت کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر فریقین میں سے کسی کو فوجی کامیابی حاصل ہوتی ہے تو ایسا طرفین کے بھاری نقصانات کے بعد ہی ممکن ہو گا اور اگر وہ جیت بھی جائیں تو وہ ان ذمہ داریوں کو نبھانے سے قاصر ہوں گے جو جنگ کے بعد بیوہ عورتوں، یتیم بچوں اور بہترین مسلمانوں کے قتل ہو جانے کی وجہ سے ان پر عائد ہوں گی اور وہ امت اسلامیہ کو لاحق ہونے والے معاشرتی ، اخلاقی، سیاسی اور اقتصادی مفاسد و نقصانات کے متحمل کبھی نہیں ہو سکیں گے۔ انہیں خطرات و خدشات کے پیش نظر انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایسے دو سرکردہ اشخاص کو حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا جنہیں اسلامی معاشرے میں اثر و رسوخ حاصل تھا اور وہ حسن رضی اللہ عنہ کے نزدیک بھی بڑے محترم تھے اور وہ دونوں قبیلہ قریش سے تعلق رکھتے تھے، ان حکیم و دانا شخصیات کو معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ بھی حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ صلح کرنے کے شدید طور سے خواہش مند تھے چاہے اس کے لیے جو بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔ اگر حالات کی باگ دوڑ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما اور ان کے اعوان و انصار کے ہاتھ میں نہ ہوتی اور معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے خوفزدہ نہ ہوتے تو انہیں سیّدنا حسن رضی اللہ عنہما سے مذاکرات کرنے اور ان کی طرف سے طلب کردہ شروط اور ضمانتوں کو تسلیم کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ اگر انہیں حسن بن علی رضی اللہ عنہما میں کوئی کمزوری نظر آتی تو وہ ان سے مذاکرات کیے بغیر ہی کوفہ میں داخل ہو جاتے اور ان کی شرائط اور مطالبات کو ہرگز کوئی اہمیت نہ دیتے۔[2] سیّدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما جس خلق عظیم سے متصف تھے وہ صلح و آشتی کی طرف مائل تھا اور
Flag Counter