جعفر کو بھیجا مگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے، پھر انہوں نے ہشام بن عقبہ بن ابو وقاص کو بھیجا تو انہیں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور اس کی وجہ ان کا ابو موسیٰ اشعری سے شدید طور سے متاثر ہونا تھا۔[1] اس کے بعد عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو بھیجا گیا اور پھر عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اور حسن رضی اللہ عنہ کو، حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا ان لوگوں پر خاصا اثر تھا، آپ لوگوں میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: لوگو! اپنے امیر کی دعوت پر لبیک کہو اور اپنے بھائیوں کی طرف چلو، یقینا کچھ لوگ ایسے ضرور ہوں گے جو اس کام کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے، اللہ کی قسم! اگر اس کے لیے اصحاب دانش و بینش اٹھیں گے تو اس کا انجام بہتر بھی ہو گا اور اس کا نتیجہ بھی جلدی سامنے آئے گا۔[2] لہٰذا ہماری دعوت پر لبیک کہو اور جس آزمائش سے ہم اور تم سبھی دو چار ہیں اس میں ہماری مدد کرو۔[3] اس پر بہت سارے اہل عراق نے ان کی دعوت پر لبیک کہا اور چھ سے سات ہزار تک لوگ عمار بن یاسر اور حسن رضی اللہ عنہما کے ساتھ امیر المومنین کی طرف نکل کھڑے ہوئے۔[4] ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت سے ہی کوفہ کے والی چلے آ رہے تھے اور ان کا شمار عراق کے محبوب عوام قائدین میں ہوتا تھا اور وہ اپنے علم و فضل اور زہد کی وجہ سے لوگوں میں خصوصی مقام و مرتبہ کے حامل تھے۔ مگر اس سب کچھ کے باوجود حضرت حسن رضی اللہ عنہ اہل کوفہ کو اپنی صف میں شامل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور وہ ان کے ساتھ نکل کھڑے ہوئے۔
۳۔ بعض بڑے قائدین کا ان صف میں موجود ہونا:… حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے کیمپ میں بڑے بڑے قائدین شامل تھے، مثلاً ان کے بھائی حسین رضی اللہ عنہ ، ان کے عم زاد عبداللہ بن جعفر، قیس بن سعد بن عبادۃ اور عدی بن حاتم وغیرہم۔ اگر حسن رضی اللہ عنہ خلافت کے متمنی ہوتے تو وہ اس قیادت کو متحرک کرنے کے لیے اسے میدان عمل میں اتار دیتے اور وہ لوگوں کو مطمئن کر کے انہیں معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ کرنے کے لیے تیار کرتے اس طرح وہ کم از کم اپنے زیر اثر علاقہ پر خلافت قائم رکھ سکتے تھے۔
۴۔ ان کا اہل عراق کی نفسیات سے بخوبی آگاہ ہونا:… حسن رضی اللہ عنہ کو اہل عراق کے ساتھ معاملات طے کرنے کی خصوصی صلاحیت و مہارت حاصل تھی اور آپ ان کی نفسیات سے بخوبی آگاہ تھے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے آغاز کار میں ہی ان کے وظائف میں اضافہ فرما دیا، اگرچہ اپنے اپنے اصلاحی پروگرام کی کامیابی کی مہم جس کی وہ خود قیادت کر رہے تھے معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ کرنے سے بھی مشکل تھی مگر وہ اس کے باوجود وہ ان کثیر مشکلات پر قابو پانے میں کامیاب رہے جن کا انہیں قدم قدم پر سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ ان کی انہیں مصالحتی کوششوں کی وجہ سے بعض لوگوں نے انہیں قتل کر نے کی کوشش بھی کی اور ان کی اس پالیسی کو مسترد
|