لیے صحت اسلام کا حکم لگایا گیا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے سینوں سے رنجش و کینہ نکال دینے کا وعدہ کر رکھا ہے، ارشاد ہوتا ہے: ﴿وَ نَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِہِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَo﴾ (الحجر: ۴۷) ’’ان کے دلوں میں جو رنجش و کینہ ہے ہم وہ سب کچھ نکال دیں گے وہ بھائی بھائی بنے ہوئے ایک دوسرے کے آمنے سامنے تختوں پر بیٹھے ہوں گے۔‘‘ اور آگے چل کر فرماتے ہیں: ان کے مشاجرات و تنازعات کے بارے میں خاموشی اختیار کرنا واجب ہے۔[1]
۸۔ اس حوالے سے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اہل سنت مشاجرات صحابہ کرام کے بارے میں خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی برائیوں کے بارے میں مروی آثار میں سے کچھ تو محض جھوٹے ہیں اور بعض میں کمی بیشی کر کے انہیں ان کے اصل مقصد سے ہٹا دیا گیا ہے۔ جبکہ صحیح طور سے ثابت شدہ امور میں وہ معذور ہیں، یا تو وہ صائب فیصلہ پر پہنچنے والے مجتہد ہیں یا مبنی پر خطا فیصلہ کرنے والے اور دونوں صورتوں میں اجر و ثواب کے مستحق۔[2]
۹۔ ابن کثیر فرماتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد رونما ہونے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تنازعات و مشاجرات میں صحابہ رضی اللہ عنہم کی حیثیت یہ ہے کہ ان میں سے کچھ تو غیر ارادی طور سے واقع ہوئے جیسا کہ جنگ جمل کا واقعہ اور کچھ اجتہاد کے نتیجہ میں، جیسا کہ جنگ صفین اور اجتہاد میں خطاء کا امکان بھی ہوتا ہے اور صواب کا بھی، لیکن غلطی کرنے والا مجتہد معذور بھی ہوتا ہے اور عند اللہ ماجور بھی۔ جبکہ صحیح نتیجہ پر پہنچنے والا مجتہد دوہرے اجر کا مستحق ہوتا ہے۔[3]
۱۰۔ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر ان سے صادر ہونے والے بعض امور کی وجہ سے طعن و تشنیع کرنا منع ہے، اس لیے کہ انہوں نے ان جنگوں میں اجتہاد کی بنیاد پر قتال کیا تھا، بلکہ یہ بھی ثابت ہے کہ ان میں سے غلطی کرنے والے کو ایک اجر اور صحیح فیصلہ کرنے والے کو دوہرا اجر دیا جائے گا۔[4] الغرض اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد سراٹھانے والے فتنوں کے بارے میں خاموشی اختیار کرنا واجب ہے، نیز ان کے لیے رحمت کی دعا کرنا، ان کے فضائل کا خیال رکھنا، ان کے سابق الاسلام ہونے کا اعتراف کرنا اور ان کے محاسن کو عام کرنا بھی ضروری ہے۔ رضی اللّٰہ عنہم و ارضاہم۔[5]
تاسعًا:…معرکہ صفین کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ کی صلاحیتوں کے انداز تبدیل ہو گئے
معرکہ صفین کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ کی صلاحیتوں کے انداز میں تبدیلی آنا شروع ہو گئی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر
|