Maktaba Wahhabi

173 - 503
وہ سب لوگوں سے بڑھ کر اس کا استحقاق رکھتے ہیں کہ ان کے بارے میں حسن ظن رکھا جائے اور ان کے امور کو اچھائی پر محمول کیا جائے۔[1] ۶۔ ابو عبداللہ بن بطہ اہل السنہ و الجماعہ کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ہمیں مشاجرات صحابہ کے بارے میں لب کشائی سے باز رہنا چاہیے، وہ ہر میدان شہادت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے، سب لوگوں سے بڑھ کر فضل و شرف حاصل کیا، اللہ نے خود ان کی مغفرت فرما دی اور تمہیں ان کے لیے مغفرت طلب کرنے اور ان سے محبت کر کے اپنا قرب حاصل کرنے کا حکم دیا اور اسے اپنے نبی مکرم کی زبان مبارک سے تم پر فرض قرار دیا، وہ بخوبی جانتا تھا کہ آگے چل کر ان سے کیا کچھ سرزد ہونا ہے، انہیں کل کائنات پر اس لیے فضیلت دی گئی کہ ان کے عمد و خطا کو معاف کر دیا گیا اور ان کے باہمی مشاجرات کی مغفرت فرما دی گئی۔[2] ۷۔ ابوبکر بن الطیب باقلانی فرماتے ہیں: ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہمیں مشاجرات صحابہ کرام کے بارے میں لب کشائی نہیں کرنی، بلکہ ان سب کے لیے رحمت کی دعا اور مدح و ثناء کرنی ہے۔ ہم ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے رضوان، امان، فوز و فلاح اور جنتوں کے خواستگار ہیں، ہمارا اعتقاد ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے جو کچھ بھی کیا درست کیا اور ان کے لیے دوہرا اجر ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے جس چیز کا بھی صدور ہوا وہ ان کے اجتہاد کا نتیجہ تھا جس کے لیے وہ اجر کے مستحق ہیں وہ نہ تو فسق و فجور کے مرتکب ہوئے اور نہ کسی بدعت کے۔ اس کی دلیل یہ ارشاد باری ہے: ﴿لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِہِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْہِمْ وَاَثَابَہُمْ فَتْحًا قَرِیْبًاo﴾ (الفتح: ۱۸) ’’یقینا اللہ مومنوں سے خوش ہو گیا جب وہ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے ان کے دلوں میں جو کچھ تھا اس نے اسے معلوم کر لیا اور ان پر اطمینان نازل فرمایا اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی۔‘‘ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد: ’’جب حاکم اجتہاد کرے اور درست نتیجہ پر پہنچے تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے اور جب وہ اجتہاد کرے اور اس سے غلطی ہو جائے تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔‘‘ اگر ہمارے وقت کے حاکم کو اس کے درست اجتہاد کی وجہ سے دوہرا اجر مل سکتا ہے تو آپ کا ان لوگوں کے اجتہاد کے بارے میں کیا خیال ہے جن سے اللہ راضی ہو چکا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے، اس قول کی صحت کی دلیل حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے: ’’میرا یہ بیٹا سردار ہے اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان صلح کروائے گا۔‘‘[3] اس ارشاد گرامی میں دونوں جماعتوں کے لیے عظمت کا اثبات کیا گیا اور دونوں کے
Flag Counter