ہے؟ ان کا اختلاف صرف قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص لینے کے بارے میں تھا اور اس کا خلافت سے کوئی تعلق نہیں ہے، اگر حکمین نے اس اساسی قضیہ کو پس پشت ڈال کر خلافت کے بارے میں فیصلہ کیا جیسا کہ تشہیر کردہ روایات میں بتایا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ نہ تو اصل نزاع کو سمجھ سکے اور نہ دعویٰ کے موضوع کا احاطہ کر سکے اور یہ بہت ہی بعید ہے۔[1]
۵۔ جن شروط کا خلیفہ میں پایا جانا واجب ہے، مثلاً عدالت، علم، تدبیر مصالح اور اس کا قریشی ہونا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ ان تمام پر پورے اترتے تھے، تو اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کی بیعت منعقد ہوئی یا نہیں؟ اگر منعقد ہو گئی -اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے اس لیے کہ انصار و مہاجرین میں سے اہل حل و عقد نے ان سے بیعت کی تھی اور اس کا ان کے مدمقابل بھی اقرار کرتے تھے- تو معاویہ رضی اللہ عنہ کا گزشتہ قول اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ جب امام امامت کی صفات سے عاری نہ ہو اور پھر اس سے عقد امامت کرنے والے اسے فسخ کرنا چاہیں تو ائمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ انہیں اس بات کا کوئی حق حاصل نہیں ہے، اس لیے کہ عقد امام لازم ہے اور بغیر کسی حقیقی سبب کے اس سے علیحدگی کا کسی کو کوئی اختیار نہیں ہے۔ جب تک امامت وخلافت کے ساتھ قطعی لزوم نہ اپنایا جائے اس وقت تک وہ نہ تو منتظم ہوتی ہے اور نہ اس سے اصل مقصود حاصل ہوتا ہے۔ اگر امام کی قسمت کا فیصلہ رعایا کے ہاتھ میں دے دیا جائے تو پھر نہ تو اس کی کوئی اطاعت کرے گا اور نہ اسے رعایا پر کوئی قدرت ہی حاصل ہو گی اور اس طرح منصب امام کا کوئی مطلب ہی نہیں رہے گا۔[2] دریں حالات مسئلہ کی اصل صورت حال وہ نہیں ہے جو روایات بتاتی ہیں کہ جو کوئی بھی امام سے راضی نہ رہے وہ اسے الگ کر دے، امامت کی گرہ لگانے والا ہی اسے کھول سکتا ہے، اور وہ ہیں اہل حل و عقد اور اگر امام شروط امامت پر پورا اترنے سے قاصر رہ جائے تو کیا علی رضی اللہ عنہ نے کوئی ایسا کام کیا؟ اور کیا اہل حل و عقد نے خلیفہ راشد کو خلافت سے علیحدہ کرنے پر اتفاق کیا یہاں تک کہ آگے بڑھ کر یہ کہا جائے کہ حکمین نے اس پر اتفاق کیا تھا؟ تو ان میں سے کچھ بھی نہیں ہوا۔ ان کی وفات تک ان سے کسی ایسی چیز کا صدور نہیں ہوا جس سے ان کی بیعت کا نقض لازم آتا ہو۔ ان سے آخری دم تک صرف عدل و بر اور تقویٰ و خیر ہی کا ظہور ہوا۔[3]
۶۔ جس زمانہ میں واقعہ تحکیم متحقق ہوا وہ فتنہ کا زمانہ تھا اور خلیفہ کے باوجود مسلمانوں کی حالت اضطراب کا شکار تھی ایسے میں اگر خلیفہ کو معزول کر دیا جاتا تو ان کی حالت کا سدھار کس طرح ممکن تھا؟ یقینا اس سے حالات مزید بگڑ جاتے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایسے اصحاب دانش و بینش لوگوں سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اس بات کی طرف کوئی پیش قدمی کریں گے۔ اس سے اس رائے کا عقلاً اور نقلاً ہر دو طرح سے بطلان ہوتا ہے۔
|