Maktaba Wahhabi

166 - 503
۷۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے شوریٰ کے چھ ارکان میں خلافت کو منحصر کر دیا تھا اور جسے انصار و مہاجرین سبھی نے پسند بھی کیا یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ جب تک ان میں سے ایک شخص بھی باقی رہے گا خلافت اسے چھوڑ کر کسی اور کے پاس نہیں جائے گی، جبکہ ان میں سے تحکیم تک صرف سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ہی باقی تھے مگر انہیں ولایت و امارت میں کوئی دلچسپی نہ تھی اور وہ اس سے کنارہ کش ہو گئے تھے۔ جبکہ عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد ان چھ میں سے افضل ترین علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ تھے اور وہی منصب خلافت پر فائز تھے پھر امر خلافت ان کے علاوہ اور کس کے پاس منتقل ہو سکتا تھا۔[1] ۸۔ روایات اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ اہل شام نے تحکیم کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ سے بیعت کر لی تھی۔ اس موقع پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اہل شام کی طرف سے معاویہ رضی اللہ عنہ سے بیعت کرنے کا کیا جواز تھا؟ اگر ایسا تحکیم کی وجہ سے ہوا تو حکمین کا اس پر اتفاق نہیں تھا اور اس کا کوئی جواز بھی نہیں تھا۔ ابن عساکر ثقہ راویوں کی سند سے سعید بن عبدالعزیز تنوخی[2] سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: عراق میں علی رضی اللہ عنہ کا دعویٰ تھا کہ وہ امیر المومنین ہیں جبکہ معاویہ رضی اللہ عنہ شام میں امارت کا دعویٰ کرتے تھے پھر جب علی رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے شام میں امیر المومنین ہونے کا دعویٰ کر دیا۔[3] یہ نص اس بات کی دلیل ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ہی خلافت کی بیعت لی تھی۔ طبری کا بھی یہی مذہب ہے، وہ ۴۰ھ کے واقعات ذکر کرکے آخر میں فرماتے ہیں: اس سال ایلیاء کے مقام پر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے خلافت کی بیعت لی گئی۔[4] اس پر ابن کثیر نے یہ تبصرہ کیا ہے: یعنی جب علی رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے تو اہل شام نے امیر المومنین کی حیثیت سے معاویہ رضی اللہ عنہ سے بیعت کر لی اس لیے کہ ان کے نزدیک اب اس سے تنازع کرنے والا باقی نہیں رہا تھا۔[5] اہل شام اس امر سے بخوبی آگاہ تھے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ خلافت کے لیے علی رضی اللہ عنہ کے ہم پلہ نہیں ہیں اس لیے کہ ان کا علم و فضل، دین و ورع، شجاعت و بسالت، ان کا سابق الاسلام ہونا اور کئی دیگر فضائل سے متصف ہونا ان کے نزدیک معروف اور مسلم امر تھا۔ جیسا کہ ابوبکر، عمر، عثمان وغیرہم رضی اللہ عنہم کے فضائل و مناقب سے بھی وہ بخوبی آگاہ تھے۔[6] علاوہ ازیں شرعی نصوص بھی پہلے خلیفہ کی موجودگی میں دوسرے خلیفہ کی بیعت سے منع کرتی ہیں، صحیح مسلم میں ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب دو خلفاء کی بیعت کی جا رہی ہو تو ان میں سے آخری کو قتل کر دو۔‘‘[7] اس معنی میں بہت سی نصوص وارد ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف سے اس کی مخالفت کرنا امر محال ہے۔[8]
Flag Counter