’’ابن اسحاق، طبری اور بیہقی رحمۃ اللہ علیہم کی دلائل النبوہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ دعوت میں شریک افراد چالیس تھے ایک آدمی زیادہ ہو گا یا کم، اور اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا ابو طالب، حمزہ رضی اللہ عنہ ،عباس رضی اللہ عنہ اور ابو لہب تھے۔‘‘
اب اٹھائیں ابن اسحاق[1]، طبری[2] ،اور دلائل النبوہ [3]۔امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے اولاً ’ابن إسحاق حدثنی من سمع عبد اللّٰه بن الحارث‘کی سندسے ذکر کیا ہے اس سند میں ابن اسحاق کا استاد مبہم ہے۔واقعہ کی تفصیل کے بعد امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے کہ ابن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ نے یہ واقعہ عبد الغفار عن المنھال بن عمرو عن عبد اللہ بن الحارث سے سنا ہے اسی طرح امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سند سے یہی قصہ ’ابن إسحاق عن عبد الغفار أبی مریم بن القاسم عن المنہال بن عمرو عن عبد اللّٰه بن الحارث‘کی سند سے بیان کیا ہے۔ علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے البدایہ میں ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے:
((تفردبہ عبد الغفار بن القاسم أبو مریم وھو کذاب شیعی اتھمہ علی بن المدینی وغیرہ بوضع الحدیث وضعفہ الباقون)) [4]
’’اس کے بیان کرنے میں عبد الغفار بن قاسم منفرد ہے اور وہ کذاب شیعہ ہے امام علی بن مدینی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے اسے وضع حدیث سے متہم کیا ہے اور دیگر حضرات نے اسے ضعیف کہا ہے۔‘‘
بلکہ ذہبی نے ذکر کیا ہے کہ امام علی بن مدینی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا یہ شیعوں کا سرغنہ تھا اور حدیثیں گھڑتا تھا۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں بڑی غلط باتیں کرتا تھا امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے میں گواہی دیتا ہو ں کہ وہ کذاب ہے۔ امام ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ اورنسائی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ اسے متروک کہتے ہیں ابن معین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وہ’ لیس
|