امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے ہی ا سے ’یضع الحدیث، متروک‘ قرار دیا ہے۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ یہ ’’رقائق‘‘ کی احادیث جو تم بیان کرتے ہو یہ کہاں سے ہیں تو اس بدنصیب نے کہا ((وضعنا ھا لنرقق بھا قلوب العامۃ)) ’’ان کو ہم نے گھڑا ہے تا کہ ہم لوگوں کے دل نرم کر یں۔‘‘بلکہ امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ نے تو فرمایا ہے:’اخشی ان یکون دجال بغداد‘ ’’میرا خوف یہ ہے کہ یہ کہیں بغداد کا دجال نہ ہو۔‘‘[1]
اصحاب ذوق ان کتابوں میں اس کا ترجمہ پڑھ لیں ہم نے نہایت اختصار سے اس کا ذکر کیا ہے اب انصاف شرط ہے کہ ایسے متروک اور وضاع کی روایت حسن ہو سکتی ہے؟ اور اس سے استدلال کی کوئی گنجائش ہے؟ اس کے استاد محمد بن عبد اللہ ابوزید المدنی کا ترجمہ تاحال نہیں ملا۔ واللہ اعلم بالصواب
ممکن ہے کہ یہاں یہ سوال ہو کہ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں اس کا ذکر کیا یہ روایت تو ان کے اپنے بتلائے ہوئے اصول کے مطابق کم سے کم حسن ہونی چاہیے۔ اس کا راوی متروک اور وضاع کیونکر ہو سکتا ہے۔ مگرامر واقع ہے کہ یہ محض طفل تسلی ہے اور حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ بھی اپنے اصول پر قائم نہیں رہ سکے۔ انھوں نے سورۃ الشعراء کی تفسیر میں ﴿ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ ﴾کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی دعوت کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے۔
((وفی حدیث علی عند ابن إسحاق والطبری والبیھقی فی الدلائل إنھم کانوا حینئذ أربعون رجلاً یزیدون رجلاً أوینقصون وفیہ عمومتہ أبو طالب وحمزۃ والعباس وأبو لھب)) [2]
|