Maktaba Wahhabi

78 - 413
بشیء ‘ ہے۔[1]بتلائیے ایسے کذاب کی روایت حسن ہو سکتی ہے؟ لگے ہاتھوں ایک اور حدیث دیکھئے ۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے ایک روایت الفارعۃ بنت ابی ا لصلت کے اشعارسن کر یہ نقل کی ہے آپ نے فرمایا: ’آمن شعرہ وکفر قلبہ‘ اور کہا ہے:’ رواہ الفا کھی وابن مندۃ‘ اسے فاکہی اور ابن مندہ نے روایت کیا ہے۔[2] حالانکہ خود حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ہی ذکر کیا ہے کہ الفا کہی نے یہ قصہ ’کلبی عن أبی صالح عن ابن عباس‘ کی سند سے ذکر کیا ہے ان کے الفاظ ہیں: ((وأخرج القصۃ الفا کھی فی کتاب أخبار مکۃ من طریق الکلبی عن أبی صالح عن ابن عباس۔۔۔الخ[3] ’’کلبی سے مراد محمد بن السائب ہے جو متہم بالکذب ہے۔امام ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ نے تو کہا ہے کہ اس کا جھوٹا ہونا ظاہر ہے وہ ابو صالح عن ابن عباس سے تفسیری روایات نقل کرتا ہے،جبکہ ابو صالح نے تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو دیکھا بھی نہیں اور نہ ہی کلبی نے ابو صالح سے، سوائے چند حروف کے سنا ہے۔‘‘ امام دارقطنی،ابو احمد الحاکم اور الساجی رحمۃ اللہ علیہم نے اسے متروک کہا ہے۔ ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: اس کے متروک ہونے پر اتفاق ہے۔ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے: اس کی ابو صالح سے روایات بناوٹی ہیں۔[4] بتلائیے کیا ایسے متروک وکذاب کی روایت حسن ہو سکتی ہے؟ اس نوعیت کی مزید متعدد مثالیں دی جا سکتی ہیں۔مگر ایک انصاف پسند کے لیے یہی تین مثالیں کافی ہیں۔ اس لیے ہم نے عرض کیا ہے حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے مقدمہ میں جو اصول ذکر کیا اس پر وہ قائم نہیں رہ سکے۔
Flag Counter