بھی ہیں جو بالاتفاق محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں جیسے مرسل، منقطع اور مجہول راویوں سے روایات ہیں اور یہ روایات امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے منافی ہیں کہ جس میں ضعف شدید ہو گا میں اسے بیان کروں گا۔
امام ابن مندہ کے اس اعتراض کے جواب میں علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے:
((وجوابہ أنہ لما کان ضعف ھذا النوع ظاھراً، استغنی بظھورہ عن التصریح ببیانہ)) [1]
’’اس کا جواب یہ ہے کہ جب اس نوعیت کا ضعف ظاہر ہے تو اس کا ظاہر ،بالتصریح ضعیف بیان کرنے سے مستغنی کر دیتا ہے۔ ‘‘
جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ بھی امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ کے سکوت پر اعتماد نہیں کرتے اور جن مقامات پر انھوں نے اعتماد کیا ہے وہ محلِ نظر ہے جیسا کہ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے۔ دیگر اہلِ علم کی تصریحات سے قطع نظر یہی دیکھئے کہ مولانا عثمانی کے تلمیذِ رشید جناب شیخ ابو غدہ نے قواعد علوم الحدیث کے حاشیہ ص سے تک میں اپنے شیخ کے موقف پر بڑی تفصیل سے نقد کیا ہے اور علامہ کوثری ،علامہ منذری، علامہ شوکانی اورعلامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ کے کلام کے علاوہ حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ کا کلام بھی خلاصۃً نقل کیا ہے۔اسی طرح دکتور خالد بن منصور الدریس نے الحدیث الحسن لذاتہٖ ولغیرہٖ جلد میں اور شیخ ابو عبیدۃ مشھوربن حسن نے الایجاز فی شرح سنن ابی داود للنووی کے مقدمہ کے حواشی میں بھی بڑی نفیس بحث کی ہے۔اس لیے ضرورت تو نہیں رہتی کہ اس پر مزید بحث کی جائے ،تاہم بعض امور کی وضاحت فائدہ سے خالی نہیں۔
1. مولانا عثمانی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث سنن ابی داود مع العون [2] سے نقل کی ہے جس کے الفاظ ہیں:
|