کیاہے۔ جیسا کہ مجمع الزوائد ہی میں ہے۔[1]
عبد اللہ بن لہیعہ رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں مختصراً ہم عرض کر آئے ہیں کہ وہ اختلاط کا شکار ہو گئے تھے اور عبادلہ کی ان سے روایت قدرے اطمینان بخش ہے۔ جس میں وہ منفرد ہوں وہ روایت قابلِ استدلال نہیں ہوتی۔ ابن لہیعہ سے حسن یہ روایت کرتے ہیں لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔ علامہ ابن الجوزی نے بھی العلل المتناہیہ[2] میں اسے ذکر کیا ہے۔ اس کے برعکس متعدد صحیح طرق میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انھوں نے فرض اور نفل نماز میں خواتین کی امامت کروائی۔ جس کی تفصیل نصب الرایہ[3] میں دیکھی جا سکتی ہے ۔لہٰذا جب صحیح اسانید سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا عمل ان کی مرفوع روایت کے خلاف ہے تو احناف کے اصول کے مطابق ترجیح راوی کے عمل کو ہے اس کی روایت کو نہیں۔
مولانا عثمانی نے اس اشکال کے جواب میں فرمایا ہے کہ یہ اصول تب ہے جب جمع وتطبیق کی صورت نہ ہو،مگر یہاں جمع ممکن ہے کہ حدیث تو کراہت پر دلالت کرتی ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا عمل اباحت وجواز پر دلالت کرتا ہے۔ مگر یہ تطبیق عذر گناہِ بدتر از گناہ کے مترادف ہے۔
1. کیا مرفوع روایت صحت وقبولیت کے اعتبار سے اسی درجہ ومرتبہ کی ہے جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے موقوف عمل کا ہے؟ حیرت ہے کہ ولید بن مسلم جیسے صدوق راوی کی روایت پر ابن لہیعہ کی روایت کو تو ترجیح دی جائے کہ وہ ولید سے بہتر راوی ہے،مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے موقوف عمل کے ثقہ راویوں کے مقابلے میں ابن لہیعہ کی کیا حیثیت ہے؟ کہ اس کی روایت کو صحیح کے ہم پلہ قرار دے کر تطبیق کی کوشش کی جائے۔
2. مرفوع روایات باہم متعارض ہوں تو حنفیہ کے نزدیک پہلے نسخ ہے۔ اگر دونوں میں کسی ایک کا متاخرہونا ثابت ہو تو وہ ناسخ اور دوسری منسوخ، پھر راجح مرجوح کو دیکھا جائے گا۔ یوں نہ ہو تو پھر جمع وتطبیق کی کوشش کی جائے گی۔ مگر صحابی جب اپنی روایت کے
|