Maktaba Wahhabi

280 - 413
خلاف عمل کرے تو اس کا عمل مرفوع کے منسوخ یا ناقابلِ عمل ہونے کی دلیل ہے۔ کیونکہ اگر صحابی بے پروائی یا غفلت سے اس پر عمل نہیں کرتا تو یہ اس کی عدالت کے ساقط ہونے کا باعث ہے چنانچہ نور الانوار میں ہے۔ ((أوعمل بخلافہ بعد الروایۃ مماھو خلاف بیقین سقط العمل بہ لأنہ إن خالفہ لقلۃ للوقوف علی نسخہ أوموضوعیتہ فقد سقط الاحتجاج بہ، لأنہ إن خالفہ لقلۃ المبالاۃ أو لغفلتہ فقد سقطت عدالتہ)) [1] اس لیے یہاں جس اصول کا سہارا مولانا صاحب نے لیا اس کی بے اصولی اس عبارت سے بالکل نمایاں ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت اپنے مفہوم میں بالکل ظاہر ہے۔ اس لیے اس کے خلاف ان کا عمل احناف کے نزدیک اس روایت کے منسوخ اور ناقابلِ عمل ہونے کی دلیل ہے۔ علامہ عبد القادر قرشی حنفی رحمۃ اللہ علیہ بھی لکھتے ہیں: ((القاعدۃ الأصولیۃ العظیمۃ المشہورۃ أن الراوی إذا عمل بخلاف ماروی فالعبرۃ بما رأی لابماروی)) [2] ’’عظیم مشہور اصولی قاعدہ ہے کہ راوی اپنی روایت کے خلاف عمل کرے تو اعتبار اس کی رائے کا ہے روایت کا نہیں۔‘‘ اس لیے یہاں بھی مولانا صاحب نے اپنے بنیادی اصول سے انحراف کر کے جواب کی کوشش کی ہے۔ متعارض روایات میں پہلے جمع وتطبیق محدثین کا اصول ہے احناف کا قطعاً نہیں۔ 3. روایت کا مفہوم واضح ہے کہ عورتوں کے لیے خیر کا پہلو مسجد میں باجماعت نماز ہے۔ کیونکہ مولانا عثمانی نے حاشیہ میں وضاحت کی ہے۔’’عورتوں کے لیے خیر کی نفی مسجد
Flag Counter