جبکہ ابن لہیعہ کے بارے میں ہے۔
((صدوق خلط بعد احتراق کتبہ وروایۃ ابن المبارک وابن وھب عنہ أعدل من غیرھما ولہ فی مسلم بعض شیء مقرون)) [1]
’’صدوق ہے اس کی کتابیں جلنے کے بعد اسے اختلاط ہو گیا تھا۔ ابن المبارک اور ابن وہب کی اس سے احادیث اعدل ہیں اور مسلم میں مقروناً ہیں۔‘‘
بلکہ فتح الباری[2] میں تو انھوں نے فرمایا ہے: ’ضعیف لایحتج بہ إذا انفرد‘ ’’وہ ضعیف ہے جب تنہا روایت کرے تو اس سے استدلال نہ کیا جائے۔‘‘ ولید کے بارے میں حضرت مولانا صاحب نے ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ کی جرح کو ذکر کیا، جبکہ علامہ زیلعی رحمۃ اللہ علیہ ان کی توثیق کے تناظر میں اسے نظر انداز کر چکے تھے۔ مگر یہاں ابن لہیعہ کے بارے میں ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ کے قول کو بھی ملحوظ رکھیں کہ اس کی تمام روایات قابلِ اعتناء نہیں۔ ہمارا مقصد یہاں الولید کی روایت پربحث کرنا نہیں بلکہ اس اصول کے تناظر میں آئینہ دکھانا ہے کہ مسلکی حمیت میں اس کو کس کس اسلوب میں پیش کیا جاتا ہے، اور اسے کس کس انداز سے مقبول یا مردود قرار دیا جاتا ہے؟
یہاں یہ بات بجائے خود غور طلب ہے کہ ابن لہیعہ کی جس روایت کو الولید کی روایت کے معارض قرار دے کر اسے راجح قرار دیا گیا ہے وہ روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مسند امام احمد اور طبرانی اوسط میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لاخیر فی جماعۃ النساء إلا فی المسجد أوفی جنازۃ قتیل)) [3]
یہ روایت انھوں نے مجمع الزوائد کے حوالے سے نقل کی اور علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ کے اس تبصرہ پر کہ ’’اس میں ابن لہیعہ ہے اور اس میں کلام ہے۔‘‘ مولانا صاحب نے یہ تبصرہ فرمایا کہ:امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی حدیث حسن اور بہت سے حضرات نے اس سے استدلال
|