اقوال کے تناظر میں مختلف اقوال کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ چنانچہ امام ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
((اختلفت الروایۃ عن یحیی بن معین فی مبارک بن فضالۃ والربیع بن صبیح، وأولاھما أن یکون مقبولاً منھما محفوظاً عن یحیی ما وافق أحمد وسائر نظرائہ))[1]
’’مبارک بن فضالہ اور ربیع بن صبیح کے بارے میں امام یحییٰ رحمۃ اللہ علیہ کے اقوال مختلف ہیں اور دونوں میں سے ان کے بارے میں وہ قول اولی ومحفوظ ہو گا جو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور باقی ان جیسے ائمہ کے موافق ہو گا۔‘‘
اس لیے امام یحییٰ رحمۃ اللہ علیہ کے ان مختلف اقول میں تطبیق کی ایک ہی صورت نہیں کہ تعدیل مقدم ہو گی۔ جیسا کہ مولانا عثمانی نے اس بحث میں باور کرایا ہے۔ علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کا انداز جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ہے وہ بھی اس کا مؤید ہے کہ یہاں ان کے ضعیف کہنے کا قول راجح ہے۔ بلکہ امام ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے۔
((غلب علیہ الخیر والصلاح حتی غفل عن الاتقان فی الحفظ وکان یروی الشیء الذی سمعہ من ثابت والحسن ونحوھؤلاء علی التوھم فیجعلہ عن أنس فظھرفی روایتہ الموضوعات التی یرویھا عن الأثبات فاستحق الترک عند الاحتجاج کان یحیی شدید الحمل علیہ)) [2]
’’اس پر خیر وصالحیت کا غلبہ تھا حتی کہ وہ حفظ میں پختگی سے غافل ہو گیا ۔ ایسی چیزیں جنھیں اس نے ثابت رحمۃ اللہ علیہ ، حسن رحمۃ اللہ علیہ اور ان جیسے حضرات سے سنا ہوتا تھا توھماً
|