تہذیب اور دیگر کتب رجال میں ۲۲۲ھ موجود ہے بلکہ خالد کیا مقدام تو اسد بن موسی سے بھی روایت کرتا ہے۔ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا انکار کیا اور اسے جھوٹ قرار دیا ہے۔ مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ اس حقیقت سے واقف ہوتے تو ممکن ہے ان احتمالات کا تکلف نہ فرماتے۔
رہی جامع ترمذی میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث تو اس کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے: ’’اس میں صالح المری ہے جسے امام ابن معین رحمۃ اللہ علیہ نے لا بأس بہ اور دوسری بار ضعیف کہا ہے۔ ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے: کہ قصداً جھوٹ نہیں بولتا تھا بلکہ غلطی کر جاتا تھا۔ ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے: اس پر نیکی غالب تھی حفظ واتقان میں غفلت کا شکار ہو گیا تھا۔ [1]
مگر حقیقۃ الامر یوں نہیں۔ امام یحییٰ رحمۃ اللہ علیہ نے بلاشبہ ایک قول میں ’لیس بہ بأس‘ کہا ہے ،مگر حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’ لکن روی خمسۃ عن یحیی جرحہ‘ ’’لیکن یحییٰ کے پانچ شاگرد ان سے جرح نقل کرتے ہیں۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی توثیق کے قول کا اعتبار نہیں کیا اور فرمایا ہے: ’ضعفہ ابن معین‘[2] بلکہ ضعیف کہنے کے قول کی نوعیت بھی دیکھئے ایک روایت میں ہے لیس بشیء، ایک روایت میں وہ ثابت سے باطل حدیثیں روایت کرتا ہے۔ بلکہ جب وہ راوی کے بارے میں’ضعیف ‘ کہتے ہیں خود انھوں نے فرمایا ہے : کہ اس سے ان کی مراد ’لیس بثقۃ لایکتب حدیثہ‘ ہوتی ہے کہ اس کی حدیث اس قابل نہیں کہ لکھی بھی جائے۔[3] یہ سخت جرح ہے اس لیے ’لیس بشیء‘ کے الفاظ بھی اپنے حقیقی معنی پر محمول ہیں۔
ایک محدث سے کسی راوی کے بارے میں اگر مختلف اقوال ہوں تو ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ اختلاف اس محدث کے تغیر اجتہاد کا سبب ہے اور جو آخری قول ہوگا اسے لیا جائے گا۔ ایک قول یہ ہے کہ مختلف احادیث کے تناظر میں راوی کے حکم میں اختلاف ہوتا ہے۔ ایک تیسرا قول یہ ہے کہ تعدیل مقدم ہو گی اور جرح کو کسی مخصوص سبب پر محمول کیا جائے گا یااسے ضعف نسبی پر محمول کیا جائے گا۔ ایک چوتھا قول یہ ہے دیگر ائمہ جرح کے
|