Maktaba Wahhabi

266 - 413
خالد کی وفات کے وقت ۴،۵ سال کے تھے۔ اس لیے مقدام کا اسد بن موسی سے سماع کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ابو عمر کندی نے اگر خالد سے اس کی روایت پر اعتراض کیا ہے تو یہ اعتراض اس سے کہیں بڑھ کر اسد بن موسی سے روایت پر وارد ہوتا ہے۔ قاضی ابن مفرج نے کہا تھا: ’سماعہ من أسد صحیح‘ اس کا سماع اسد بن موسی سے صحیح ہے۔ مگر امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے سماع کی بہت زیادہ نفی کی اور اسے جھوٹ قرار دیا ہے۔قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ ہیں: ’وقد نفی ھذا القول النسائی جداً ونسبہ إلی الکذب[1] انصاف شرط ہے اس درجہ کا راوی ایسا ہی ’’مختلف فیہ‘‘ ہوتا ہے اور اس کی حدیث حسن ہوتی ہے؟ ائمۂ جرح وتعدیل کے اقوال پر ایک نظر ڈالیے۔ علامہ الحلبی رحمۃ اللہ علیہ کا اسے وضاعین میں شمار کرنا۔ علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کا اس روایت کی سند کے بارے میں فرمانا کہ یہ آفت مقدام کی طرف سے ہے، اس نے یہ سند گھڑی ہے۔ اس شدید جرح کے باوجود وہ ’’مختلف فیہ‘‘ اور اسی اصول سے اس کی حدیث حسن۔(سبحان اللہ) حالانکہ خود حضرت عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک جگہ فرمایا ہے: ((لا یقبل التوثیق إذا کان الجرح مفسراً لا سیماً إذا جرح بالوضع)) [2] ’’کہ توثیق قبول نہیں کی جائے گی جب جرح مفسر ہو بالخصوص جب اس پر جرح وضع حدیث کی ہو۔‘‘ لیکن افسوس کہ اس کے برعکس ’’محمود ‘‘کی توثیق مقبول اور وہ ’’مختلف فیہ‘‘ اور اس کی حدیث حسن ۔ فاعتبروا یا أولی الأبصار مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے جو خدشات واحتمالات مقدام کی تاریخ پیدائش یا خالد کی وفات کے بارے میں ذکر کیے ہیں۔ وہ محض اختراعی ہیں۔ جس کی کوئی بنیاد نہیں۔ خالد کی وفات
Flag Counter