انھیں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کر دیتا تھا۔ جس کے نتیجہ میں اس کی روایات میں موضوعات ظاہر ہو گئیں جنھیں وہ ثقہ راویوں سے روایت کرتا لہٰذا وہ استدلال کے لیے متروک ہے امام یحییٰ اس پر سخت جرح کرتے تھے۔‘‘
غور فرمائیے، امام ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ نے بھی امام یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ کے جرح کے قول کو ہی لیا ہے۔ اس لیے یہاں ان کی جرح کا قول ہی راجح ہے۔ بالفرض اگر بعض اور اقوال کے ساتھ ساتھ ان کی توثیق کا قول ہی راجح سمجھا جائے تب بھی دیگر ائمہ کے اقوال کے مقابلے میں توثیق مرجوح قرار دی جائے گی۔ کیونکہ صالح پر جرح مفسر ہے۔ اور جرح وتعدیل میں اختلاف ہو تو جرح مفسر ہی راجح قرار پاتی ہے، جیسا کہ قبل ازیں ہم خود مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے نقل کر آئے ہیں۔
سخت حیرت کی بات ہے کہ مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے علم وفضل کے باوصف امام ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ کا ابتدائی کلام تو نقل کر دیا جس میں صالح کی صالحیت کا ذکر ہے،مگر راوی حدیث ہونے کے ناطے ان کا کلام مولانا صاحب کی صالحیت کی نذر ہو گیا۔ إنا للّٰه وإنا إلیہ راجعون
بالکل یہی طریقہ انھوں نے امام ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ کا کلام نقل کرنے میں اختیار کیا ہے چنانچہ امام ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ ہیں:
((ھو رجل قاص حسن الصوت وعامۃ أحادیثہ منکرات تنکرھا الأئمۃ علیہ، ولیس ھو بصاحب حدیث وإنما أتی من قلۃ معرفتہ بالأسانید والمتون وعندی أنہ مع ھذا لایعتمد الکذب بل یغلط شیئاً)) [1]
’’وہ قصہ گوتھا، آوازبڑی خوبصورت تھی، اس کی اکثر احادیث منکرہیں ائمہ نے ان کا
|