Maktaba Wahhabi

204 - 413
عائشۃ أصلاً فدل علی وھن ذلک الخبر)) [1] ’’یہ حدیث صحیح نہیں کیونکہ یہ منقطع ہے اور اس کے راویوں میں ایساراوی ہے جس سے استدلال نہیں ہو سکتا ،اس کی تردید امام عروۃ رحمۃ اللہ علیہ کے قول سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مکمل نماز پڑھنے میں وہی تاویل کی جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کی۔ اور اس کا کوئی جواز نہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے وہی تاویل کی ہو جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کی تھی۔ (کہ جو جہاں شادی کرے وہ وہاں پوری نماز پڑھے، کیا(معاذ اللہ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایسا کیا؟)حضرت عروہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول اس روایت کے ضعیف ہونے کی دلیل ہے۔‘‘ بلکہ علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ کی بالتبع حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں تأویل وتعبیر کے برعکس مختلف تأویلات ذکر کر کے اس تأویل کو درست قرار دیا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سفر کے دوران قصر کے قائل تھے اور قیام کی صورت میں قصر کے قائل نہ تھے۔ نیز فرمایا کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اعراب کی تعلیم کے لیے انھوں نے منی میں چار رکعتیں پڑھی ہوں جیسا کہ خود ان سے امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ اور بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کیا ہے۔ علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ کی اس قدر وضاحت کے بعد شیخ ابو غدہ رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا کہ ((وقد أقرہ ھو))کہ علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے حافظ ابنِ قیم رحمۃ اللہ علیہ کے موقف کی تائید کی ہے سراسر غلط اور حقیقت سے بالکل مختلف ہے۔ ثانیاً:حافظ ابنِ قیم رحمۃ اللہ علیہ کا التاریخ میں امام بخاری کے سکوت سے راوی کی توثیق پر استدلال محلِ نظر ہے۔ مولانا عثمانی مرحوم نے قواعد علوم الحدیث میں بھی فرمایا ہے: ((وکذاکل من ذکرہ البخاری فی تواریخہ ولم یطعن فیہ فھو ثقۃ فإن عادتہ ذکر الجرح والمجروحین قالہ ابن تیمیۃ کذافی نیل الأوطار)) [2]
Flag Counter