Maktaba Wahhabi

205 - 413
یہاں مولانا صاحب کا نیل الاوطارسے ’’ابن تیمیہ‘‘ کے حوالے سے یہ اصول نقل کرنا درست نہیں کیونکہ جب علی الاطلاق’’ابن تیمیہ‘‘ کہا جاتا ہے تو اس سے مراد شیخ الاسلام ابوالعباس احمد ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ مراد ہوتے ہیں جبکہ علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ قول ابو البرکات ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے جو شیخ الاسلام کے جداعلی ہیں۔ شیخ ابو غدہ رحمۃ اللہ علیہ نے قواعد کے حاشیہ میں بھی اس پر تنبیہ کی ہے۔ جزاہ اللّٰه خیراً مگر اس سے علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی اسی اصول سے متفق سمجھنا درست نہیں جیسا کہ ابھی ہم وضاحت کر آئے ہیں۔ باقی رہا یہ اصول تو شیخ العرب والعجم سید بدیع الدین رحمۃ اللہ علیہ نے ’’قواعد‘‘ پر رد کرتے ہوئے فرمایا ہے: ’’اس اصول کے بطلان کے لیے یہی کافی ہے کہ خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تاریخ میں متعدد ایسے راویوں سے سکوت کیا ہے جن پر انھوں نے اپنی دوسری کتابوں میں جرح کی ہے۔ مثلاً تاریخ میں انھوں نے حسب ذیل افراد کا ذکر کیا ہے۔ الحارث بن النعمان اللیثی، ا لصلت بن مہران التیمی الکوفی ابو ہاشم ، عبد اللہ بن معاویۃ من ولد الزبیربن العوام الاسدی البصری، عبد اللہ بن محمد بن عجلان مولی فاطمۃبنت عتبۃ القرشی، عبد الرحمن بن زیاد بن أنعم الافریقی، عبد الوہاب بن عطاء الخفاف ،عمران العمی، عاصم بن عبید اللہ العمری ،معاویۃ بن عبد الکریم الثقفی ابو عبد الرحمن بصری، مختار بن نافع ابو اسحاق التیمی، نصر بن حماد بن عجلان، یحییٰ بن ابی سلیمان المدنی، یحییٰ بن محمد الجاری، ان کے بارے میں انھوں نے کوئی کلام نہیں کیا نہ جرح کی، مگر ان کو الضعفاء میں ذکر کیا اور ان پر جرح کی۔‘‘ [1] اس قطعی حقیقت کے بعد التاریخ میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے سکوت کو توثیق قرار دینا نہایت مشکل ہے۔ اس کے بعد ہم ضروری نہیں سمجھتے کہ اس پر مزید کچھ عرض کیا جائے۔شیخ ابوغدہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس حوالے سے الرفع والتکمیل کے حواشی میں جو کچھ ذکر کیا ہے بحمد اللہ ہم اس کی حقیقت سے آگاہ ہیں مگر یہاں اس تفصیل کی گنجائش نہیں۔شائقین حضرات اس سے
Flag Counter