’’ابوالبر کات ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے: کہ ضعف کے سبب کا مطالبہ ممکن ہے کیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تاریخ میں عکرمہ بن ابراہیم کا ذکر کیا ہے اور کوئی طعن نہیں کیا ، جبکہ ان کی عادت ہے کہ جرح اور مجروحین کا ذکر کرتے ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما ، امام احمد، ابو حنیفہ، مالک رحمۃ اللہ علیہم اور ان کے اصحاب کہتے ہیں کہ مسافر اگر نکاح کرے تو اس پر اتمام لازم ہے۔‘‘
زاد المعاد سے یہ نقل کر کے مولانا صاحب مزید فرماتے ہیں کہ اس سے ان کا مقصد اس حدیث کی تحسین ہے کہ اس راوی پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جرح نہیں کی لہٰذا یہ ان کے نزدیک ثقہ ہے۔ اس لیے جرح غیر مفسر یہاں قبول نہیں۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ کا اس سے استدلال بھی اس حدیث کی تصحیح پر دال ہے ،لہٰذا یہ حدیث حسن ہے۔[1]
عرض ہے کہ حافظ ابنِ قیم رحمۃ اللہ علیہ کا یہی کلام علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی نیل الاوطار ’باب من اجتاز فی بلد فتزوج فیہ۔۔۔ فلیتم‘ میں ذکر کیا ہے اور انھی کے حوالے سے شیخ ابوغدہ رحمۃ اللہ علیہ نے الرفع والتکمیل[2] کے حاشیہ میں اپنے موقف کی تائید میں پیش کیا ہے کہ ائمہ نقاد اگر راوی پر سکوت اختیار کریں تو یہ تعدیل شمار ہو گی۔
اولاً: گزارش ہے کہ بلاشبہ علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی بات زادالمعاد کے حوالے سے نقل کی ہے لیکن کیا وہ اس کے باوجود اس روایت کو حسن اور عکرمہ کو ثقہ تسلیم کرتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ کیونکہ اس عبارت سے پہلے انھوں نے امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ سے اس کا منقطع اور عکرمہ کا ضعیف ہونا نقل کیا۔ پھر اس عبارت کو ذکر کر کے معاً بعد حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ سے اس روایت پر نقد نقل کیا کہ
(( ھذا حدیث لا یصح لأنہ منقطع، وفی رواتہ من لا یحتج بہ، ویردہ قول عروۃ أن عائشۃ تأولت ماتأول عثمان، ولا جائز أن توؤل
|